سپریم کورٹ نے سرکاری سطح پر ‘معذور’ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا
ایک ماہ کے اندر میرٹ کے مطابق معذوری کے حامل افراد کے لیے کوٹہ پر بھرتیوں کا حکم بھی جاری
اسلام آباد(ویب ڈیسک )عدالت عظمی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ‘معذور’ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا جس کے بعد سرکاری سطح پر یہ لفظ استعمال کرنا توہین عدالت کے زمرے میں شامل ہوگا۔سپریم کورٹ نے معذور افراد کے ملازمت میں کوٹہ سے متعلق کیس کے فیصلے میں حکم دیا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں سرکاری سطح پر معذور کا لفظ استعمال کرنا بند کر دیں اور اس کی بجائے ‘معذوری کا حامل شخص’ یا ‘منفرد صلاحیتوں کا حامل شخص’ لکھا اور پڑھا جائے۔فیصلے میں کہا گیا کہ معذور لفظ استعمال کرنے سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور آئندہ سے سرکاری خط و کتابت، سرکولرز اور نوٹی فکیشن میں معذور نہ لکھا جائے۔علاوہ ازیں عدالت عظمی نے ایک ماہ کے اندر میرٹ کے مطابق معذوری کے حامل افراد کے لیے کوٹہ پر بھرتیوں کا حکم بھی صادر کردیا۔سپریم کورٹ نے درخواست گزار عبید اللہ کو ملازمت نہ دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ایک ماہ کے اندر میرٹ کے مطابق معذوری کے حامل افراد کی کوٹہ پر بھرتیاں کرنے کا حکم دے دیا۔واضح رہے کہ درخواست گزار عبید اللہ نے معذور کوٹہ پر ملتان میں سینئر ایلیمنٹری اسکول ایجوکیٹر کے لیے اپلائی کیا تھا۔81 نشستوں میں سے صرف عاصمہ قاسم کو معذور کوٹہ پر ملازمت دی گئی جبکہ قانون کے مطابق 81 میں سے 5 نشستیں معذور کوٹہ کی بنتی تھیں۔بعد ازاں عبید اللہ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئینِ پاکستان معذوری کے حامل افراد کو عام افراد کے مساوی حقوق دیتا ہے جبکہ ‘ڈِس ایبل پرسن آرڈیننس’ کے مطابق کسی شعبے میں کل ملازمتوں میں 2 فیصد کوٹہ معذوری کے حامل افراد کے لیے مختص ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں 33 لاکھ سے 2 کروڑ 70 لاکھ افراد کسی نہ کسی جسمانی معذوری سے دوچار ہیں اور معاشرہ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عام تاثر ہے کہ معذوری کے حامل افراد کوئی کام درست انداز میں نہیں کرسکتے۔عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ معذور افراد کو ملازمت سرانجام دینے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں اور ان کی سہولت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔واضح رہے کہ 27 جولائی کو سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملازمتوں، آمد و رفت اور رہائش کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات پر معذور افراد کو ہر سہولت پہنچانے کا حکم دیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے تحریر کردہ 11 صفحات پر مشتمل فیصلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو معذور افراد کی ملازمت کے کوٹے میں شامل خالی اسامیوں کے لیے اشتہار دینے کا بھی کہا گیا تھا اور یہ یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی کہ کامیاب امیدواروں کا تقرر ان کے علاقائی کوٹے میں جہاں سے وہ تعلق رکھتے کے حساب سے ہو۔یہ فیصلہ 2013 میں سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر جاری کیا گیا تھا جس میں معذور افراد کے بنیادی حقوق کے نفاذ کی استدعا کی گئی تھی۔عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، پیمرا، پی ٹی وی اور پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کو عوامی خدمت کے پروگرامز اور پیغامات کی نشریات کے ذریعے آگاہی پیدا کرنی چاہیے۔اسی طرح روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹیز کو معذور افراد تک پبلک ٹرانسپورٹ کی رسائی کی ہدایت کی گئی تھی
#/S