اسلام آباد (صباح نیوز)
نیو انٹرنیشنل اسلام آباد ایئر پورٹ کے منصوبے پر94 ارب کی ادائیگیاں کی گئیں، حکام
دو رن ویز کے درمیان فاصلہ کم سے کم 4 کلو میٹر ہوناچاہیے اسلام آباد ایئر پورٹ پر400میٹر سے بھی کم ہے، چیرمین کمیٹی
اسلام آبادائیرپورٹ کی تعمیر کے حوالے سے جی آئی ٹی بنانے کامعاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھاجائے،ارکین کمیٹی کامطالبہ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن میں انکشاف ہواہے کہ اسلام آبادائیرپورٹ کے81ارب کے پیکجز پر مختلف انکوائریاں ہو رہی ہیں جبکہ اب تک نیو انٹرنیشنل اسلام آباد ایئر پورٹ کے منصوبے پر94 ارب کی ادائیگیاں کی گئیں ہیں، دو رن ویز کے درمیان فاصلہ کم سے کم 4 کلو میٹر ہوناچاہیے اسلام آباد ایئر پورٹ پر400میٹر سے بھی کم ہے ارکین کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اراکین کمیٹی کے مطالبہ برائے جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھا جائے گا۔بدھ کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر بہرامند خان تنگی کی طرف سے13 نومبر2018 کو منعقد ہونے والے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آباد انٹر نیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد کے منصوبے میں کرپشن کے معاملات اور اس حوالے سے جے آئی ٹی بنانے،سینیٹرانجینئر رخسانہ زبیری کے 4 مارچ2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے ایئر ٹکٹس پر مختلف اقسام کے ٹیکسز کی وصولی،چیئرمین سینیٹ کی طرف سے ریفر کیے گئے سی ای ا و پی آئی اے کے سپیشل اسسٹنٹ کے خلاف حراساں کرنے کے علاوہ پی آئی اے کے ملازمین کیلئے رضاکارانہ علیحدگی سکیم(Voluntary Separation Scheme) کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر بہرامند خان تنگی کی طرف سے13 نومبر2018 کو منعقد ہونے والے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آباد انٹر نیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد کے منصوبے میں کرپشن کے معاملات اور اس حوالے سے جے آئی ٹی بنانے کے متعلق معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے منصوبے میں کرپشن کے حوالے بتایا گیا کہ یہ ایک منصوبہ نہیں تھا بلکہ اس میں بے شمار پیکجز تھے جس پر مختلف کنٹریکٹر نے کام کیا ہے۔سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ نیو انٹرنیشنل اسلام آباد ایئر پورٹ کے منصوبے پر94 ارب کی ادائیگی کر دی گئی ہے جس میں سے 81 ارب کے پیکجز پر انکوائریاں ہو رہی ہیں۔سینیٹر بہرا مند خان تنگی نے کہا کہ میں نے یہ مسئلہ ایوان بالا میں بھی اٹھایا تھا اور اس کمیٹی اجلاس میں مطالبہ کیا تھا کہ جے آئی ٹی بنائی جائے۔دو سال ہونے والے ہیں مگر میرے سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ آربیٹریشن میں اس طرح کے کیسز نہیں دیکھے جا تے۔ کیبنٹ کمیٹی کی رپورٹ آ جائے تو جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے شروع کے اجلاسوں میں ایک مسئلہ اٹھایا تھا کہ ٹیکسی ٹریک کو رن وے بنایا گیا ہے۔ دو رن ویز کے درمیان قانون کے مطابق 4 سے ساڑھے چار کلو میٹر کا فاصلہ ہونا چاہیے مگر نیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے رن ویز کے درمیان 400 میٹر کا فاصلہ بھی نہیں ہے جو نہ صرف خطرناک بلکہ قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اراکین کمیٹی کے مطالبہ برائے جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھا جائے۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ نیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد کے حوالے سے مختلف انکوائریوں کی رپورٹس سے ملوث لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سینیٹرانجینئر رخسانہ زبیری کے 4 مارچ2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے ایئر ٹکٹس پر مختلف اقسام کے ٹیکسز کی وصولی کے معاملے کے حوالے سے کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ادارے کی طرف سے جواب فراہم کر دیا گیا ہے اور معاملے کوختم کیا جاتا ہے۔ جواب سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری کو بھیج دیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ کی طرف سے سی ای او کے سپیشل اسسٹنٹ کے خلاف حراساں کے معاملے کا ان کیمرہ تفصیلی جائزہ بھی لیا گیا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی آئی اے کے ملازمین کیلئے رضاکارانہ علیحدگی سکیم(Voluntary Separation Scheme) کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے میں اضافی سٹاف ہونے کی وجہ سے یہ سکیم متعارف کرائی گئی ہے۔یہ ایک رضاکارانہ سکیم ہے ملازمین رضاکارانہ طور پر اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی آئی اے ساڑھے چودہ ہزار ملازمین ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ قطر ایئر لائن کے 240 جہاز،32 ہزار ملازمین اور فی اوسط جہاز 133 ملازمین بنتے ہیں۔ ایمریٹس269 جہاز، 62 ہزار ملازمین فی اوسط جہاز231 ملازمین، ترکش ایئر لائن 329 جہاز، 31 ہزار ملازمین اور فی اوسط جہاز94 ملازمین، اتحاد ایئرلائن 102 جہاز، 21530 ملازمین، فی اوسط جہاز211 بنتے ہیں جبکہ پاکستان کی پی آئی اے ایئر لائن میں 29 جہاز،14500 ملازمین اور فی اوسط جہازملازمین500 بنتے ہیں جو ادارے کی خسارے کی بڑی وجہ ہیں اگر بیلنس شیٹ سے500 ارب کے قرضہ جات نکال دیئے جائیں توفرق سامنے آ سکتا ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ رضاکارانہ سکیم سے 3200 ملازمین کیلئے 12.87 ارب روپے کا خرچ آئے گا اور سالانہ تنخواہوں پر 4.2 ارب روپے کا فرق پڑے گا۔سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ گزشتہ دو برس سے کہہ رہا ہوں کہ کمیٹی کو ایک موازنہ رپورٹ پیش کی جائے کہ وہ کمپنیاں جو منافع میں جارہی ہیں ان کی ویلیو چین انیلیسزرپورٹ پیش کی جائے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے خسارے کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ادارے کا آڈٹ مکمل ہوگیا ہے۔97 فیصد کمپلائنس رپورٹ آ گئی ہے۔ ایس ایم ایس نہیں تھا وہ بھی بن گیا ہے۔ آیوسا کمپنی کے پا س جا رہے ہیں۔ لائسنس والے ایشو بھی جلد حل جائیں گے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ ان کمپنیوں کے نمائندوں کو یہاں شامل کر کے ایس او پیز تیار کیے جائیں اور ایسا طریقہ کار بنایا جائے کہ مشکوک لائسنسوں کو چیک کر کے حل کیا جائے۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر فیصل جاوید، مصطفی نواز کھوکھر، سجاد حسین طوری، شیری رحمان، نعمان وزیر خٹک، منظور احمد کاکڑ، سید مظفر حسین شاہ،بہرا مند خان تنگی کے علاوہ سیکرٹری ایوی ایشن حسن ناصر جامی، سی ای او پی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک، جی ایم پی آئی اے اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی.