اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس’جے آئی ٹی تشکیل، نوٹیفکیشن جاری
جے آئی ٹی میں پولیس اور حساس اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے
جے آئی ٹی اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار سے بھی مدد لے گی
جے آئی ٹی تھانہ رمنا اور تھانہ مارگلہ میں درج دو مقدمات کی تفتیش اور تحقیق کرے گی
جے آئی ٹی رپورٹ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کی جائے گی
اسلام آباد(ویب نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ پر وکلاء حملہ کیس کی تحقیقات کے لئے چیف کمشنر نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔نوٹیفیکیشن کے مطابق جے آئی ٹی میں پولیس اور حساس اداروں کے نمائندے، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ایس ایس پی سی ٹی ڈی، ایس پی صدر، ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او مارگلہ شامل ہوں گے۔ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی ہوں گے۔ جے آئی ٹی اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار سے بھی مدد لے گی اور اسلام آباد ہائی کورٹ پر ہونے والے حملے میں ملوث تمام عناصر کو بے نقاب کرے گی اور واقعہ میں ملوث تمام ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔ جے آئی ٹی تھانہ رمنا اور تھانہ مارگلہ میں درج دو مقدمات کی تفتیش اور تحقیق کرے گی اور رپورٹ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کی جائے گی۔قبل ازیں غیر قانونی چیمبرز گرائے جانے کے خلاف احتجاج کے نام پر اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنے والے 32 وکلا کے کیسز کی سماعت کے لئے 5 بینچ تشکیل دے دیئے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس سے جاری کاز لسٹ کے مطابق وکلا کیخلاف توہین عدالت کیسز کی سماعت 5 مختلف بینچ کریں گے۔احسن مجید گجر سمیت دیگر کیخلاف توہین عدالت نوٹس کی سماعت جسٹس عامر فاروق، کلثوم رفیق سمیت دیگر کے خلاف توہین عدالت نوٹس کی سماعت جسٹس فیاض احمد انجم جندران، مظہر جاوید کے خلاف توہین عدالت نوٹس کی سماعت جسٹس غلام اعظم قمبرانی، خالد محمود کے خلاف توہین عدالت نوٹس کی سماعت جسٹس طارق جہانگیری، راجہ امجد سمیت دیگر کے خلاف توہین عدالت نوٹس کی سماعت جسٹس بابر ستار کریں گے۔یاد رہے وکلا نے تمام عدالتوں میں سماعت رکواتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کو یرغمال بنالیا تھا۔ وکلا نے ہائی کورٹ کی عمارت کے شیشے، گملے، کھڑکیاں، ٹی وی، فرنیچر تک توڑ دیا تھا۔ احتجاج اور توڑ پھوڑ کی فوٹیج بنانے پر صحافیوں کے موبائل فون بھی چھین لیے اور وڈیوز ڈیلیٹ کر دی گئی تھیں۔