حکومت شجر کاری کے ساتھ زراعت سے وابستہ افراد کے لیے بھی اقدامات کرے
زرعی ریسرچ ادارے غیر فعال اور زرعی زمینیں ہائوسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہورہیں ۔محمد جاوید قصوری
لاہور (ویب ڈیسک)
امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ پاکستان میں مسلسل تیسرے سال بھی کاٹن کی پیداوار میں کمی تشویشناک ہے۔ جنوری تک 34فیصد کمی سے صرف 5.5ملین بیلز کی پیداوار ہوئی ہے جو گزشتہ سال سے 3ملین بیلز اور 30برسوں میں سب سے کم ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زراعت جیسا اہم شعبہ بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ وزیر اعظم کے زراعت کے حوالے سے کیے گئے اقدامات محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مختلف عوامی وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ زراعت ملکی معیشت میں 80فیصد حصے کے ساتھ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سابقین نے اس شعبے سے وابستہ افراد کو ریلیف فراہم کیا اور نہ ہی موجودہ حکمران اس کے لیے کچھ کررہے ہیں۔ کاشتکاروں کے مسائل دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ کسانوں کے مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کیا جانا چاہیے ۔ انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں۔ نقلی بیج اور ادویات کی سپلائی کو روکنا حکومت کا کام ہے مگر وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مسلسل ناکام دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کے زرعی ریسرچ کے اداروں نے کوئی نمایاں کام نہیں کیا ہے ان کو فعال کرنے کی از حد ضرورت ہے۔ کپاس ، گندم اور گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک شرمناک ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک شعبہ زراعت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ محمد جاوید قصوری نے اس حوالے سے مزید کہا کہ حکومت کی بڑے شہروں میں شجر کاری مہم پر توجہ ہے مگر زراعت پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ زرعی اصلاحات لائی جائیں۔ ماضی میں بھی کاشتکار زبوں حالی کا شکار تھا اور آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ زرعی زمینیں ہائوسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے انحطاط اور عوام کو جمہوری ثمرات سے محرومی کے غم و آلام نے نیم جان کردیا ہے.