اسلام آباد (ویب ڈیسک)
پاکستان اور جموں وکشمیر کی سرکردہ شخصیات، سیاستدانوں، سابق سفارت کاروں ، ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے قائد تحریک آزادی کشمیر سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی تحریک حریت جموں و کشمیر کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی کی بھارتی حراست میں شہادت کو دوران حراست قتل قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق اور عالمی اداروں سے واقعے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔سینٹ خارجہ امور کمیٹی کے چیرمین سنیٹر مشاہد حسین سید نے محمد اشرف صحرائی کی بھارتی حراست میں شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ہے ا۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ محمد اشرف صحرائی کا دوران حراست قتل انسانیت کے خلاف بھارت کا ایک اور جرم ہے ۔ اس مسلے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے گا۔اشرف صحرائی طبیعت کی خرابی کے باوجود بھارتی جیل میں قیدرہے، دفتر خارجہ نے اشرف صحرائی کے قتل بارے بیان جاری کیا ہے جس میں بھارتی جیلوں میں قیدکشمیریوں کی صحت سے متعلق تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیرین مزاری نے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ حریت رہنما اشرف صحرائی جولائی 2020 سے غیرقانونی طور پر بدنام زمانہ اودھم پور جیل میں قید تھے ، شہید ہوگئے ہیں۔ گذشتہ سال ان کا بیٹا جنید صحرائی سری نگر میں بھارتی فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستانی فاشزم کے ذریعہ کشمیریوں کو خاموش نہیں کیا جا سکتا ۔سا بق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ دو مشہور شخصیات ، سید علی شاہ گیلانی اور اشرف صحرائی نے اپنی پوری زندگی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے وقف رکھی ہے۔ ان شخصیات میں سے ایک ا شرف صحرائی اپنے مقصد کے لیے دوران قید اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے جبکہ دوسری شخصیت سید علی گیلانی کی ہے جو مسلسل نظر بند ہیں۔ ہمارا ان کو سلام ہے ۔سا بق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے محمد اشرف صحرائی کی شہادت پر اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ جس مقصد کے لیے کشمیری رہنماوں نے نڈر ہوکر جدوجہد کی اس کو سپورٹ کرنے کے لیے ہمیں جدوجہد ڈبل کرنا ہوگی ۔ آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس(ر) منظور حسین گیلانی نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ اشرف صحرائی کی وفات کشمیر کی تاریخ اور تحریک کا بہت بڑا سانحہ ہے – وہ علم ، حلم ، جرات ، ایثار ، قربانی ، خلوص کے پیکر تھے – وادی لولاب کے دور دراز اور نظر انداز بیابانوں سے زندگی کا سفر شروع کر کے کشمیر کے دل سرینگر پر چھا جانے والے صحراء نے اپنی جرات رندانہ ، اردو ، فارسی اور عربی کے علم کی گہرائی نے سب پر سحر طاری کر دیا – زندگی بھر جماعت اسلامی اور اس میں سید علی گیلانی سے وابسطہ اور ان کے دست راست رہے – اب ان کے جانشین بھی تھے، اعتدال پسند ، دلیل اور حوصلے سے بات کرنے اور سننے والے تھے – دونوں کی قدر مشترک اقبالیات تھی – تحریک کشمیر میں تن ، من ، دھن لگا دیا – انسانی زندگی اور سہارے کا انمول سرمایہ ، جواں سال بیٹا جنید مرحوم گذشتہ سال راہ آزادی میں قربان ہوا اور خود بدنام زمانہ بلوال جیل جموں میں بلا علاج زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہ کے آخری لمحوں میں جموں کے ایک ہسپتال میں اسیری کی حالت جان جان آفرین کے سپرد کردی – اللہ پاک صحرائی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، ان کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرے- امریکہ میں مقیم کشمیر گلوبل کونسل ، ساوتھ ایشیا ڈیمو کریسی واچ کے بورڈ ڈائریکٹر اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنماراجہ مظفر نے لکھا ہے کہ سرینگر سے انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ محمد احسن اونتو نے فون پر افسوسناک اطلاع دی ہے کہ اشرف صحرائی صاحب دوران حراست وفات پا گے ہیں ۔ اونتو صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی کہ صحرائی صاحب کی صحت کے پیش نظر انہیں ہسپتال منتقل کیا جاے، مگر عدالت لیت و لعل سے کام لیتی رہی تا وقیکہ کہ پیر کے روز ان کی حالت بگڑنے پر انہیں جموں میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ وفات پا گے ۔ یہ ایک عدالتی قتل ہے ۔ راجہ مظفر نے کہا کہ عالمی برادری اس واقع کا سختی سے نوٹس لے۔ راجہ مظفر نے کہا کہ انہیں یاسین ملک کے بارے تشویش بڑھ گی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یاسین ملک سمیت تمام کشمیری قیدیوں کو فوری طور رہا کر کے سرینگر منتقل کیا جاے۔ دہلی کی تہاڑ جیل میں کورونا کے کیس رپورٹ ہوے ہیں ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما محمدفاروق رحمانی نے لکھا ہے کہ بطل آذادی کشمیر اور صاحب علم و عزیمت محمد اشرف صحرائی کی حراستی موت نے کشمیر میں ہندوستانی سامراج کے ناپاک عزائم کو مکمل عریاں کردیا ہے اور یہ بات پھر سے ثابت ہوگئی کہ جموں و کشمیر میں نریندرا مودی کی سفاکی عروج کو پہنچ چکی ہے ، جبکہ ہندوستان اس ریاست میں تنہا ہوگیا ہے۔ صحرائی صاحب کی پوری زندگی قومی نصب العین کے لئے جدوجہد اور جیل خانوں کی صعوبتوں سے عبارت ہے۔ پہلے ان کا بیٹا شہید ہوگیا اس کے بعد مودی سرکار نے آپ کی بیماری کا لحاظ کیے بغیر ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا اور اس وقت تک ان کو رہا نہیں کیا گیا، جب تک نہ ان کی زندگی کا چراغ گل کیا گیا۔ لیکن وہ شہادت کے او نچے مقام پر فائز ہوگئے اور آخر کار بھارتی سفاک رسوا ہوگئے۔ اس موقعہ پر اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ عالمی و علاقائی اداروں کا فرض بن جا نتا ہے کہ وہ صحرائی صاحب کے حراستی قتل کی آزادانہ تحقیقات کر یں تاکہ بھارت کا اصلی چہرہ دنیا دیکھ سکے، اور کشمیری کو انصاف مل سکے۔ خود کشمیری عوام نے یہ پختہ عزم کیا ہوا ہے کہ آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول تک ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ اللہ تعالی ا صحرائی صاحب کی قبر کو پر نور فرمائیں اور ان کی شہادت کے طفیل یہ ریاست ہندوستان کے ناجائز اور جابرانہ تسلط سے آزاد ہو جائے۔ کشمیری رہنما تنویر السلام نے لکھا ہے کہ تحریک آزادی کے سرخیل ، سید علی گیلانی کے دست راست اہل کشمیر کی توانا آواز ا شرف صحرائی اپنے رب کی رضا کے لیے اس دنیا سے خفا رہے، آزادی کی طلب لیے اپنے رب کی عدالت میں پہنچ گئے۔اللہ جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔