نئی دہلی  (ویب نیوز)

مالیاتی جرائم پر نگاہ رکھنے والی بھارتی ایجنسی نے بھارت میں بی بی سی کے خلاف غیر ملکی زرمبادلہ کے ضابطوں کی مبینہ خلاف ورزی کی تفتیش شروع کی ہے۔ چند ماہ قبل دہلی اور ممبئی کے اس کے دفاتر کی ٹیکس حکام نے تلاشی لی تھی۔بھارتی میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کے مطابق یہ نئی تفتیش مالیاتی جرائم پر نگاہ رکھنے والی بھارتی ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ ایجنسی نے فارن ایکسچنج مینجمنٹ ایکٹ (فیما) کے تحت بی بی سی کو مارچ میں ایک نوٹس جاری کیا تھا اور اس ماہ کے اوائل میں اس کے بعض ملازمین سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ یا بی بی سی کی جانب سے اس نئی پیش رفت پر فی الحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ جرمن ٹی وی کے مطابق تفتیشی ایجنسی نے بی بی سی سے اپنی آمدن اور خرچ کی تفصیلات اور مالیاتی تفصیلات پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔فروری میں انکم ٹیکس حکام نے بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر کی تلاشی لینے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ انہیں ٹیکسوں میں بے ضابطگی، آمدنی کو منتقل کرنے اور ضابطوں پر عمل نہیں کرنے کے متعلق کچھ اہم سراغ ملے ہیں۔انکم ٹیکس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہمیں جو دستاویزات ملے ہیں "وہ مبینہ ٹیکس چوری کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر ملکی ادارہ کی حیثیت سے بھارت میں اپنی بعض آمدنی کو چھپایا گیا ہے۔”فروری میں بی بی سی کے دہلی اور ممبئی دفاتر کی جانچ 59 گھنٹے تک چلی تھی۔ اس دوران ملازمین کو گھر جانے نہیں دیا گیا تھا اور ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون اسکین کیے گئے تھے۔بی بی سی نے اس برس جب وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے ایک متنازع ڈاکیومنٹری نشر کیا اسی وقت سے وہ حکومت کی سخت نگاہ میں آگئی ہے۔گجرات فسادات میں، جس میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، اس وقت کے وزیر اعلی مودی کے کرداراور حالات پر مبنی اس ڈاکیومنٹری پر حکومت ہند نے سخت نکتہ چینی کی تھی اور بعد میں اس پر پابندی لگا دی تھی۔ پابندی کے بعد ٹوئٹر اور یو ٹیوب جیسے سوشل میڈیا چینلو ں سے بھی اسے ہٹا دیا گیا تھا۔برطانوی پارلیمان نے بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی پر نکتہ چینی کی تھی۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمس کلیورلی نے بھی، جب وہ جی 20 وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے دہلی آئے تھے، اس معاملے کو اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے سامنے اٹھایا تھا۔تاہم ذرائع کے مطابق بھارتی وزیرخارجہ نے انہیں جواب دیا تھا کہ "بھارت میں سرگرم تمام اداروں کو ملکی قوانین اور ضابطوں کی مکمل پابندی کرنی ہوگی۔”بھارت اور برطانیہ ایک آزاد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن گزشتہ ماہ لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر خالصتان حامیوں کے مظاہروں کے بعد باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔بدھ کے روز نئی دہلی نے برطانیہ سے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر اپنی نگرانی میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔۔