ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو شفاف انداز میں تفتیش کی ہدایت، سماعت 30 جون تک ملتوی
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے سائبر کرائم قوانین کی آڑ میں ایف آئی اے کا اختیارات کے بے جا استعمال کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران ملکی اداروں کو مبینہ طور پر بدنام کرنے کے الزامات کاسامنا کرنے والے صحافی اور بلاگر اسد علی طور کوطلب کرنے کاایف آئی اے کا نوٹس معطل کردیا ۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے ایسا نوٹس جاری نہیں کر سکتی، صرف متاثرہ شخص شکایت کر سکتا ہے،پیکا ایکٹ کے تحت جس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے وہی متاثرہ شخص شکایت کر سکتا ہے کوئی تھرڈ پارٹی نہیں، چیف جسٹس نے نجی ٹی وی کی اینکر پرسن شفا یوسفزئی کی شکایت پر ایف آئی اے کو اسد طور کے خلاف انکوائری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے پٹیشنر کو سمن کرنے کا ایف آئی اے کا کال اپ نوٹس معطل کیا تھالیکن ایف آئی اے کو انکوائری سے نہیں روکا، چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی اے شکایت ملنے پر ابتدائی انکوائری کے بعد پہلے تسلی کرے کہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں؟ ایف آئی اے کا کام ہے کہ انکوائری کی فائنڈنگز کے ساتھ نوٹس کر کے جواب طلب یا سمن کرے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایف آئی اے کو اس عدالت کے فیصلوں کا بھی احترام نہیں،ایف آئی اے کا نوٹس دوسرے کو ملزم بنا دیتا ہے،ایف آئی اے حکام نے کہا کہ سائبر کرائم قانون کے تحت متاثرہ شخص متعلقہ اتھارٹی کو سوشل میڈیا مواد بلاک کرنے کی درخواست دے سکتا ہے، اس پرچیف جسٹس نے ایف آئی اے حکام سے کہاکہ یہ قانون تب حرکت میں آئے گا جب متاثرہ شخص خود شکایت کرے،کئی کیس آئے جہاں کسی تیسرے شخص کی شکایت پر کارروائی کی گئی،کیا آپ نے اسد طور کیس میں پہلے شکایت کنندہ کی شکایت کا جائزہ لیا؟کیا آپ نے دیکھا کہ شکایت کنندہ کی شکایت درست ہے؟ اسد طور کیخلاف شکایت کنندہ شفا یوسفزئی خود عدالت میں پیش ہوئیں اور ان کے وکیل نے موقف اپنایاکہ ہماری شکایت پر ایف آئی اے نے کارروائی ہی روک رکھی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے ان کو آپ کی شکایت پر کارروائی سے نہیں روکا،لیکن ہم اتنے گر گئے ہیں کہ دوسروں کا احترام نہیں، دوسروں کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں، چیف جسٹس نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کومخاطب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آپ کے پاس ایک پاور ہے جسے آپ نے قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے، ایک شہری نے ماحولیاتی آلودگی پر تحفظات کا اظہار کیا تو ایف آئی اے نے اسے بھی نوٹس کر دیا،ایف آئی کو نوٹس میں لکھنا چاہئے کہ شکائت کنندہ کون ہے؟ اور شکایت کیا آئی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو شفاف انداز میں تفتیش کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 30 جون تک ملتوی کردی۔