ینگون (ویب ڈیسک)
میانمار میں جمہوری حکومت نے عوام کو کورونا وائرس سے بچا وکی مدافعتی ویکسین لگانے کی ابتدائی منصوبہ بندی کی تھی، جس پر اب فوجی حکومت عمل پیرا ہے۔ عوام فوجی حکومت کی مخالفت میں ویکسین نہیں لگوا رہے کیونکہ یہ سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ ہے۔ایک درمیانی عمر کی خاتون نے ینگون سے جرمن ٹی وی کو بتایا کہ اس کی بوڑھی ماں بھی ویکسین لگوانے سے انکار کرتی ہیں اور ان کا بھی کہنا ہے کہ ابھی انقلاب کا عمل جاری ہے۔ خاتون کے مطابق اس کا بھائی ڈاکٹر ہے اور سول نافرمانی تحریک کا حصہ ہے اور اسی وجہ سے ماں بھی بیٹے کے ساتھ کھڑی ہے۔کئی لوگوں کو خوف لاحق ہے کہ ویکسین لگوانے پر انہیں فوجی حکومت مخالف اور جمہوریت نوازوں کے غصے اور غضب کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جن افراد نے ویکسین لگوا لی ہے انہیں سوشل میڈیا پر جمہوریت نوازوں کی جانب سے شرمندہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔میانمار کے ہیلتھ سیکٹر کے کئی افراد سول نافرمانی کی تحریک میں کام چھوڑنے والے اولین لوگ تھے اور اب یہ فوجی حکومت کی مخالف تحریک میں بھرپور طریقے سے شامل ہیں۔ حکومت کے کئی دوسرے محکموں کے بے شمار افراد بھی اب سول نافرمانی کی اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔حکومت کے حامی بعض ڈاکٹروں نے مریضوں کا علاج بھی کیا لیکن اب نجی کلینکس پر پولیس اور فوج کا پہرا لگا دیا گیا ہے۔ یہ تعیناتی ایسے ڈاکٹروں کے خلاف کی گئی ہے جو فوجی حکومت کے مخالف ہیں۔بظاہر ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر نے میانمار پر جب دھاوا بولا تو اس وقت ہسپتالوں میں کسی حد تک ایمرجنسی کے حالات پیدا ہو چکے تھے کیونکہ کئی ڈاکٹروں اور دیگر طبی امدادی عملے نے فوجی حکومت کے خلاف جاری تحریک میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس صورت حال نے ہیلتھ سسٹم پر معمول سے کہیں زیادہ دبا پیدا کر دیا۔دوسری جانب کورونا انفیکشنز بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں اور طبی عملے کی کمیابی سے مجموعی حالات گھمبیر ہو گئے ہیں۔ہلاکتوں کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں میں ہے، پچیس جولائی کر ساڑھے تین سو سے زائد انسانی جانیں موت کے منہ میں چلی گئی تھیں۔ مجموعی ہلاکتیں سات ہزار ایک سو بتائی جاتی ہیں۔ابھی حال ہی میں فوجی حکومت کے سربراہ مِن آنگ ہلینگ نے نوکریوں سے دور رہنے والے ڈاکٹروں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بنیں اور بیمار افراد کے علاج کے لیے اپنا کام شروع کریں کیونکہ ملک کو اس وقت کووڈ ایمرجنسی کا سامنا ہے۔