کراچی:چیئرمین بزنس مین گروپ نے صارفین کے تحفظ کے لیے کی نئی کیٹگری، سلیب متعارف کروانے کو یکسر مسترد کر دیا
6 ماہ کی اوسط پر سلیب لگانا ناقابل عمل اور ناانصافی ہے جب موسم کی وجہ سے اور مواقعوں کے لحاظ سے بجلی کی کھپت مختلف ہوتی ہے۔زبیر موتی والا
کراچی(ویب نیوز)چیئرمین بزنس مین گروپ، سابق صدر کے سی سی آئی زبیر موتی والا نے نیپرا کی سبسڈی ریشنلائزیشن پلان پر سماعت میں شرکت کرنے کے بعد ردعمل دیتے ہوئے 200کلو واٹ سے کم کی اوسط کھپت کی بنیاد پر صارفین کے تحفظ کے لیے کی نئی کیٹگری، سلیب متعارف کروانے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ صارفین کے تحفظ کے لیے نئی کیٹگری، سلیب متعارف کروانے کا فیصلہ سبسڈی کے حجم کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن اس سے غریب عوام کی زندگی بری طرح متاثر ہوگی جو 2020 کے آغاز سے ہی کرونا وبائی مرض کے پھیلنے کی وجہ سے بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور آج تک اس کا شکار ہیں کیونکہ یہ وائرس اب بھی معیشت، کاروبار اور غریب عوام کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اس فیصلے کے نفاذ کے بعد پہلے مرحلے میں تقریبا 80 لاکھ صارفین سبسڈی کے دائرے سے باہر ہو جائیں گے جبکہ مجموعی طور پر 22 ملین بجلی صارفین ہیں جو اس وقت سبسڈی حاصل کر رہے ہیں۔اتنی زیادہ کمی معاشرے کے غریب طبقے کو مزید شدید بحرانوں سے دوچار کردے گی۔انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ اگر بجلی کی کھپت پچھلے 6 ماہ کے دوران 200 یونٹس سے تجاوز کرتی ہے تو پھر مذکورہ صارفین کو سبسڈی کے لیے شمار نہیں کیا جائے گا چاہے ان کی کھپت 200 یونٹ سے کم بھی رہی ہو۔ یہ غریب صارفین پر ایک بڑا بوجھ کاباعث ہوگا جو ہر ماہ بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے سخت جدوجہد کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے بلوں کا انتظام کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔چیئرمین بی ایم جی نے کہا کہ 6 ماہ کی اوسط پر سلیب لگانا ناقابل عمل اور ناانصافی ہے جب موسم کی وجہ سے اور مواقعوں کے لحاظ سے بجلی کی کھپت مختلف ہوتی ہے۔کراچی میں موسم گرما عام طور پر سات ماہ تک رہتا ہے اور حالیہ برسوں کے دوران گرمی کی لہر ایک عام رجحان بن چکی ہے جبکہ کھپت عام طور پر تہواروں اور خاندانی تقریبات کے دوران بھی بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ کرائے پر رہنے والے عام طور پر اپنے گھروں کو تبدیل کرتے رہتے ہیں لہٰذا ایسے حقیقی غریب صارفین پر6 مہینوں کے لیے زیادہ نرخوں کا بوجھ ڈالا جائے گا جن کے گھر میں پچھلے کرائے دار یا رہنے والے200 کلو واٹ سے زیادہ بجلی استعمال کر چکے ہوں تو ایسے افراد اپنی کھپت کو کیسے کنٹرول کریں گے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ صحیح نقطہ نظر نہیں بلکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کے الیکٹرک سمیت ڈسکوز کو لازمی حکم جاری کرے کہ وہ گھریلو صارفین کو انورٹر کے ساتھ سولر پینل فراہم کریں تاکہ وہ خود بجلی پیدا کرسکیں اور اگلے دو سالوں کے دوران ان کے بلوں میں سولر پینل کی قیمت وصول کی جائے۔ اس سے ان کی بجلی کی کھپت کم ہو جائے گی اور بڑھتے ہوئے سرکلر ڈیٹ سے تیل کے درآمدی بل میں کمی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا نیز ہر ایک کے لیے جیت کی صورتحال ہو گی۔زبیر موتی والا نے کہا کہ لائف لائن صارفین پر بوجھ ڈالنے کے یہ تمام اقدامات آئی ایم ایف کی ہدایت پر کیے جارہے ہیں کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے لہذا اسے آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا اور وہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف زمینی حقائق سے واقف نہیں۔ آج کے منظر نامے میں کے ای ٹیرف میں مزید اضافہ صرف چوری اور چوروں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاور کمپنیاں شرحوں میں اضافے اور سبسڈی کو کم کرنے کا آسان طریقہ تجویز کرتی رہی ہیں وہ چوری کو کم کرنے اور سبسڈی کم کرنے کے لیے مزید کوششیں نہیں کرنا چاہتے۔ وہ تکنیکی لائن لاسز کو کم نہیں کرنا چاہتے۔ وہ بڑے صارفین کو اسمارٹ میٹر، وائرلیس میٹر جیسے چارجز جمع کرنے کے جدید طریقے متعارف نہیں کرانا چاہتے تاہم چھوٹے صارفین کو سولر پینلز کے حصول میں مدد دے کر سپلائی کو کم کیا جاسکتا ہے اور انہیں اپنی بجلی خود پیدا کرکے ضرویات پوری کرنے کی ترغیب دی جائے جو صورتحال سے نمٹنے کا بہتر طریقہ ثابت ہوگا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ اقدام اٹھانے کے بعد مجموعی رقم کیا ہوگی جسے لائف لائن صارفین سے اکٹھا کیا جائے گا اور صارفین پر کس قسم کا بوجھ ڈالنے کی بات کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ نیپرا کی سماعت کے دوران رقم ظاہر نہیں کی گئی جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مناسب ہوم ورک نہیں کیا گیا ۔اگر آپ اربوں روپے کا بوجھ ڈالنے جارہے ہیںجو چھوٹے صارفین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بننے والا ہے۔چیئرمین بی ایم جی نے مزید کہا کہ اگر اس سبسڈی کو ہٹا دیا گیا جو دراصل انڈسٹری سے وصول کی جانے والی کراس سبسڈی ہے تو اسے استعمال کرنے ہدف کیا ہوگا۔ کیا اس سے انڈسٹری کا ٹیرف کم ہو گا جو کہ بہت سے دوسرے عوامل کی وجہ سے بوجھ تلے ہے یا صرف سرکلر ڈیٹ کو کم کرنے کی جانب اس کا رخ موڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے حکومت کو یہ بھی یاد دلایا کہ سرکلر ڈیٹ اس لیے پیدا کیا گیا کیونکہ سرکلر ڈیٹ پر اثرات کا ادراک کیے بغیر آئی پی پیز سے بجلی زائد نرخوں پر خریدی گئی ہے۔ فروخت کی قیمت اور قیمت خرید کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے جسے حقیقت پسندانہ بنانے کی ضرورت ہے اور کراس سبسڈائزیشن کے بجائے حکومت کو خزانے سے بجٹ کے ذریعے پوراکرنا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انڈسٹری، مینوفیکچرنگ سیکٹر اور دیگر تمام سیکٹر اس سے زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے جو ان کے حریف ادا کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف گزشتہ روز نیپرا کی سماعت کی یہ پوری مشق بلکہ دو سال کا پورا پروگرام درحقیقت انڈسٹری کو ایک ناگزیر صورتحال میں دھکیل دے گا۔ حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ حریفوں کی طرف سے دی جانے والی قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ہم سے ٹیرف لے جو قابل قبول اور حریف کے ساتھ مسابقت رکھتا ہے۔
#/S