اپوزیشن جماعتوں نے مجالس قائمہ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا
سول کورٹس ہتک عزت کے مقدمات میں انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو گئی ہے۔وزیراطلاعات
کسی کو بدنام کرنے پر 25 کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہو سکے گا
میڈیا کمیشن اور ٹریبونل قائم ہوںگے۔ اپیل سپریم کورٹ میں ہو سکے گی بل
ہر کوئی سیاستدانوں اور کاروباری طبقہ کو بدنام کرتا ہے
فوج اور عدلیہ سے متعلق کوئی کھل کر بات نہیں کرتا ارکان
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے دس روز میں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا یہ اعلان انھوں نے دونوں ایوانوں کی مجالس قائمہ برائے اطلاعات و نشریات کے مشترکہ اجلاس میں کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے سینیٹ قومی اسمبلی کی اطلاعات و نشریات کی مجالس قائمہ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ وزیر اطلاعات نے واضح کیا ہے کہ سول کورٹس ہتک عزت کے مقدمات میں انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو گئی ہے۔ نیا نظام قائم ہو گا۔ کسی کو بدنام کرنے، شہرت کو نقصان پہنچانے، الزام تراشی پر 25 کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہو سکے گا۔ میڈیا کمیشن اور ٹریبونل قائم ہوںگے۔ اپیل سپریم کورٹ میں ہو سکے گی۔ PMDA پر بریفنگ کے لئے سینیٹ قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ برائے اطلاعات و نشریات کا مشترکہ اجلاس بدھ کو پاک چائنہ سینٹر کے کمیٹی روم میں طلب کیا گیا تھا ۔ اجلاس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کے چیئرمین فیصل جاوید کی صدارت میں ہوا ۔ اپوزیشن سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین میاں جاوید لطیف سمیت کسی رکن نے شرکت نہیں کی۔ اجلاس کی کارروائی یکطرفہ تھی۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب اور وزارت کے متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔ فواد چوہدری نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت کے مقدمات کے حوالے سے سول کورٹس ناکام ہو گئی ہیں۔ یہ عدالتیں کسی کی عزت و شہرت کا تحفظ نہیں کر سکیں۔ نئے لیگل فریم ورک کی ضرورت ہے۔ PMDA کے قانون سے میڈیا سے متعلق دیگر تمام قوانین تحلیل ہو جائیں گے۔ بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ اس میں ڈیجیٹل میڈیا بھی شامل ہو گا۔ فلم کے حوالے سے بھی ضابطہ کار یہ اتھارٹی بنا سکے گی۔ پیمرا بھی ختم ہو جائے گا اور کمرشل، نان کمرشل، کیبل ٹی وی اور دیگر کا اختیار اس اتھارٹی کے پاس ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 196 کمرشل ایف ایم ریڈیو ہیں۔ نان کمرشل 62 ہیں۔ کیبل ٹی وی آپریٹرز 4026ہیں۔ آئی پی ٹی 12 ہیں۔ موبائل ٹی وی 06ہیں۔ ٹی ایم 05 ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں 114 ٹی وی چینلز ہیں۔ 31 نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز، 42 تفریحی، 23 علاقائی زبانوں میں، 07 تعلیمی، 03 سپورٹس، 42 لینڈنگ رائٹس پرمیشن، بچوں سے متعلق 14 چینلز بھی ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اے بی سی سرٹیفائیڈ 1672 اخبارات ہیں ان میں 1192 روزنامے، 203 ہفت روزے، 28 پندرہ روزہ، 245 ماہانہ، سہ ماہی 04، نیوز ایجنسی 389، چھاپے خانے 134 ہیں۔ انہوں نے صحافتی تنظیموں کی تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں بھی ضابطہ کار موجود ہے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کے اداروں کی تفصیلات بھی فراہم کیں۔ انہوں نے اتھارٹی کی طرف سے میڈیا کمیشن اور ٹریبونل کے قیام کے بارے میں بھی ارکان کو آگاہ کیا اور کہا کہ نئے قانون سے تمام متعلقہ قوانین تحلیل ہو جائیں گے۔ پہلا بل ہے جس کے بارے میں کابینہ میں پیش ہونے سے پہلے شراکت داروں سے مشاورت کی گئی۔ اتھارٹی 12 ارکان بشمول چیئرمین پر مشتمل ہو گی۔ 06 ارکان کا تعلق پرائیویٹ سیکٹر سے ہو گا۔ انہوں نے اتھارٹی کے فرائض اور اختیارات کی بھی آگاہی دی ہے۔ کمیشن 09 ارکان پر مشتمل ہو گا جس میں چار ارکان کا تعلق میڈیا سے ہو گا۔ میڈیا کمپلینٹ کمیشن بھی قائم کیا جائے گا۔ میڈیا ٹریبونل چیئرمین کے ساتھ دس ارکان پر مشتمل ہو گا اور ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت رکھنے والے اس کے ارکان ہوںگے۔ میڈیا کمیشن 21 روز میں فیصلہ کر دے گا۔ 25 کروڑ تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ اپیل ہائی کورٹ کی سطح کے سطح کے میڈیا ٹریبونل میں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جلد از جلد ترامیم سے آگاہ کیا جائے۔ دس روز میں بل کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔ چاہتے ہیں پینتالیس دنوں میں یہ قانون ملک میں لاگو ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ بعض میڈیا مالکان نہیں چاہتے کہ ورکرز کے حقوق کا تحفظ ہو ۔ اینکر پرسنز، رپورٹرز کو اپنے حقوق کے حوالے سے کہیں نہ کہیں رسائی مل جاتی ہے۔ مگر مسئلہ عام میڈیا ورکرز کا ہے جنہیں ہم تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں میڈیا کمپلینٹ کمیشن قائم ہوںگے پہلے مرحلے میں وفاقی و صوبائی دارالحکومتوں سمیت حیدر آباد، سکھر، فیصل آباد، ملتان میں قائم کئے جائیںگے ۔نئے قانون کے تحت اخبارات کوڈیکلیریشن کے اجرا چھاپو ں کی رجسٹریشن اے بی سی ،سوشل میڈیا سے متعلق ضابطہ کار کا بھی اختیار ہوگا ۔سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کے چیئرمین فیصل جاوید نے کہا کہ اس بل میں میرے بھی تحفظات ہیں آئندہ اجلاس ہو گا جس میں اپوزیشن کی موجودگی ضروری ہے ۔ تمام ارکان کی موجودگی میں اس پر بحث ہو گی ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ دس دنوں میں ترامیم دے دیں ۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ تمام ارکان کی موجودگی ضروری ہے ۔ اکرم چیمہ نے کہا کہ ہر کوئی سیاستدانوں اور کاروباری طبقہ کو بدنام کرتا ہے فوج اور عدلیہ سے متعلق کوئی کھل کر بات نہیں کرتا ۔ جہانگیر آفتاب نے بھی قانون کی تعریف کی ۔ اکرم چیمہ نے کہا کہ سیاستدانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ ارکان نے کہا کہ اچھا ہے اینکر پرسنز سمیت کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے والوں پر 25 کروڑ جرمانے کی تلوار لٹکا دی جائے ۔ ناصر خان نے بھی مبارکباد دی ۔ فواد چوہدری نے بتایا ہے کہ میڈیا مالکان چاہتے ہیں کہ میڈیا ٹربیونل نکال دیں ۔ جرمانہ بھی کم کریں ۔ کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ تکنیکی بنیادوں پر آئندہ اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا ۔