اسلام آباد  (ویب ڈیسک)

قومی اسمبلی کو وقفہ سوالات میں بتایا گیا ہے کہ ڈیموں کے متعلق12ارب روپے سے زائد کے  عطیات میں سے  ایک پیسہ بھی ڈیموں کی تعمیر کیلئے  ریلیز نہ ہوسکا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں  ہوا وزارت آبی وسائل کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو آگاہی دی گئی ہے کہ 10جولائی 2018ء کو عدالت عظمیٰ نے دیامر ،بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ قائم کیا تھا۔ وزیراعظم کی طرف سے  اس اقدام کی تعریف کی گئی اور کوششوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا۔ فنڈ اکائونٹ  کے نام کو وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان فنڈ برائے دیامر، بھاشا اور مہمند ڈیم سے تبدیل کردیا گیا اب تک اس فنڈ میں12ارب93 کوڑ40لاکھ روپے سے زائد کی رقم جمع ہوئی۔ واپڈا کی جانب سے آج تک اس فنڈ سے کوئی رقم حاصل نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق بینک میں12ارب93کروڑ  روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ میچورٹی کی آخری تاریخ 19نومبر 2020ء  بھی دی گئی ہے۔ کل سرمایہ کاری  کے علاوہ بقایا رقم کے اعدادوشمار بھی جاری کیے گئے ہیں۔ بقایا رقم22کروڑ 38 لاکھ سے زائد ہے۔  چینی گندم کے  اعدادوشمار بھی قومی اسمبلی میں پیش کردئیے گئے ہیں جبکہ زرعی پیکیج کی تفصیلات سے بھی ارکان کو آگاہی دی گئی ہے۔ شاہدہ رحمانی کے سوال کے جواب میں وزارت  قومی غذائی تحفظ سے بتایا گیا ہے کہ1200  ارب روپے  سے زائد کووڈمالی  پیکیج میں50 ارب روپے  زرعی شعبے کیلئے دئیے گئے ان میں پنجاب کو6ارب  دو کروڑ روپے سے زائد، سندھ کو 3ارب 9کروڑ سے زائد،خیبرپختونخوا کو 17کروڑ، بلوچستان کو 54 کروڑ دئیے گئے، 50ارب میں 15 ارب 3کروڑ سے زائد ریلیز کیے گئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2020ء تا جون 2021ء تک گندم و چینی درآمد کی گئی، گندم  کی درآمد کیلئے77ارب54کروڑ 57لاکھ ، چینی کی درآمد کیلئے 9ارب 60کروڑ83لاکھ روپے سے زائد کی رقم استعمال کی گئی۔ اس طرح مجموعی طورپر گزشتہ مالی سال میں87 ارب15 کروڑ 41 لاکھ روپے سے زائد کی گندم و چینی درآمد کی گئی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کپاس کے دھاگے کی پیداوار میں خودکفیل ہے۔قومی اسمبلی کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال ادویات کی قیمتوں میں 11سے 12فیصد اضافہ کیا گیا۔ ضروری ادویات کی قیمتوں میں 7فیصد، کم قیمت ادویات کی قیمتوں میں 10فیصد اضافہ کیا گیا۔ وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے بتایا  کہ اب ہماری وزارت جن سوالات کے جواب نہیں آئے ان وزارتوں سے پوچھے گی ہم تمام سوالات کے جوابات دیں گے ہر سال پاکستان میں سیگریٹ کے فلٹرز کی شکل میں تقریبا 16000 ٹن فضلہ بنتا ہے۔ ہم نے اسلام آباد میں تین لاکھ درخت لگائے ہیں اور اگر ایک درخت کاٹا جاتا ہے وہاں دس درخت لگائے جاتے ہیں۔ درختوں کی کٹائی روک کر درخت لگائے جائیں گے اور گیس فراہم کی جائے گی  اس حوالے سے بھی سروے کی ضرورت ہے کہ کون کون سے علاقے ایسے ہیں جہاں پر گیس کی کمی کی وجہ سے درخت کاٹے جارہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے ایگریکلچر کے لیے سبسڈی دی ہے۔ گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے 50 ارب روپے کا وزیراعظم نے زرعی شعبے کے لیے  وزیراعظم نے 2020 میں کوڈ 19 کے پیش نظر 1200 ارب سے زائد پیکیج  کا اعلان کیا تھا پہلی بار نئے سیڈ کے ریسرچ کی جا رہی ہے۔ آسان قسطوں پر کسانوں کو قرضے دیئے جا رہے ہیں تاکہ کسانوں کی مالی حالت بہتر ہو سکے۔ فنانس ڈویژن نے وزرات ایم ایف ایف ایس آر کو 15.6 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں جس میں سے 2020_21 کے دوران 15.3 ارب روپے صوبوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت  ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ 313 ملین روپے پہلی مرتبہ بچوں میں غذا کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رکھے گئے۔ غذائیت سے بھر پور غذا بچوں کو دی جائے گی ۔ہمارا ٹارگٹ ہے کہ 2030 تک ہم بچوں میں غذائی کمی کو پورا کیا جائے گا ۔پارلیمانی سیکرٹری

برائے آبی وسائل صالح محمد نے کہا کہ جو پانی ہمارے پاس ہے وہ ارسا اس کو تقسیم کر رہا ہے ہمارے پاس بجلی ہے لیکن ٹرانسمیشن لائن میں مسائل کی وجہِ سے بجلی کی سپلائی میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ ڈیم بن رہے ہیں کم ڈیم ہونے کی وجہ سے پانی کے مسائل ہیں ہیں کیونکہ جو پانی موجود ہے اس کو ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر صوبے کو ان کے حصے کا پانی مل رہا ہے جب پانی کی کمی ہوتی ہے تب کی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں علی محمد خان نے کہا کہ 14 کلومیٹر ہم نے کراچی سرکلر ریلوے کا کلیئر کروا لیا ہے باقی 16 کلومیٹر رہتا ہے اس حوالے سے صوبائی حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے یہ بند پڑی تھی جس کو عمران خان کی حکومت نے چلائے گی۔ شاہدہ رحمانی نے کہا کہ جس سے عوام کو فائدہ پہنچ سکتا تھا اس کو نہیں چلایا گیا اس پر علی محمد خان نے کہا کہ گزشتہ دس سال میں کراچی سرکلر ریلوے نہیں چل سکی لیکن ہم اس کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں پھاٹک اور اوور بریج بنیں ہیں بعض علاقوں میں سیوریج کے مسائل ہیں اس میں اگر سندھ حکومت تعاون کر گی تو ہم جلد باقی جو 16 کلومیٹر کو بھی جلد بحال کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کاٹن کی پیداوار کم ہوئی ہے جہاں پر کاٹن کاشت کی جاتی تھی ان علاقوں میں گنے کی کاشت شروع کر دی گئی تھی۔ ایک پالیسی کے تحت کاٹن کی پیداوار کم کی گئی اور گنے کی پیداوار بڑھائی گئی ہم اب نئے بیجوں پر ریسرچ کر رہے ہیں ہماری کاٹن کی ایکسپورٹ کم ہوئی ہے۔ ایک سوال پر انہوں کہا کہ ہمارے کسانوں نے مشکل میں بھی کام کیا ہے۔10 ارب روپے ہم نے خریف کی فصل کے لیے دی ہے اب کوشش کی جارہی ہے کہ جن علاقوں میں کاٹن کی پیداوار کم کی گئی ہے ان کو دوبارا کاٹن کی پیداوار طرف لایا جائے گا۔ دوبارا وہ وقت آئے گا کہ ہم کاٹن کی ایکسپورٹ کریں گے اگر گزشتہ حکومت نے کاٹن کے نئے بیجوں کے لیے ریسرچ نہیں کی جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ جب سے ریلوے کے وزیر بنے ہیں تب سے اسمبلی کے اجلاس نہیں آئے ہم نے جتنی سبسڈی دی تھی وہ اس حکومت نے ختم کی ہے ہمیں بتایا جائے کہ کاٹن کی پیداوار کم کیوں ہوئی ہے اس پر علی محمد خان نے کہا کہ اللہ کے فضل گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے ہمارے دور میں فیصل آباد میں 50ہزار لومز چلائی گئی ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ سوالوں کے جواب ٹوڈی پوائنٹ جواب دیا جانا چاہیے ایوان میں وزیر آتے نہیں، ایک ہی وزیر مملکت پر بوجھ ہے ان کو بھی پوری طرح سے بریف نہیں کیا جاتا۔ اس ملک میں کون لوگ ایسے ہیں جو طاقتور ہیں جن پر حکومت کا ہاتھ نہیں پڑتا۔ اس پر علی محمد خان نے کہا کہ رائیونڈ اور لاڑکانہ پر نظر ڈالیں آپ کو جواب مل جائے گا ہم نے تو چینی معافیا اور طاقتور پر ہاتھ ڈالا ہے ۔پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت عالیہ حمزہ ملک نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے 75 ملین عوام کو یوٹیلیٹی اسٹورز پر فائدا پہنچایا ہے۔ ہم درامدی معیشت سے برآمدی معیشت پر چلے گئے ہیں ۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیا کی کوالٹی چیک کی جاتی ہے اگر کسی جگہ پر کوالٹی کے مسائل ہیں تو بتایا جائے  اس کو دیکھیں گے کچھ چیزوں کو ہم باہر سے خریدتے ہیں جس کی وجہ سے ریٹ میں فرق ہوتا ہے۔  پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا اکبر چترالی نے کہا کہ  وزارتیں اور محکمے سوئے  ہوئے  ہیں کہ ہمارے سوالات کے جوابات نہیں آتے ہم ادھر آتے محنت کرتے لیکن کوئی جواب نہیں ملتا۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ پارلیمانی وفد بیرونِ ممالک میں جاتے ہیں لیکن ہماری جماعت کو نظر انداز کیا جاتا ہے کب تک یہ مرضی کے لوگوں کو لیجانے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ قادر پٹیل نے کہا کہ میرے سوال کا ڈیڑھ سال بعد جواب آیا ہے وہ بھی غلط ہے ۔سائرہ بانو نے کہا کہ جو وفد بیرونِ ممالک جاتے ہیں شائد ان کوجی ڈی اے کا نام یاد نہیں ہے ہمیں پتا ہے کہ کون سے لوگ جاتے ہیں ۔آغا رفیع اللہ نے کہا کہ جن لوگوں کو چائنہ کی ویکسین لگائی گئی ہے ان کو بیرون ملک نہیں جانے دیا جارہا، لیکن دوسری ویکسین مل نہیں رہی ہے ایسے حالات میں لوگ کیا کریں۔