مستعفی ہونے کے بعد اشرف غنی افغانستان چھوڑ گئے

کابل (ویب نیوز )      افغان صدر اشرف غنی نے مستعفی ہونے کے بعد افغانستان چھوڑ دیا ہے۔
افغان و برطانوی میڈیا کے مطابق تھوڑی دیر قبل عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے والے افغان صدر اشرف غنی افغانستان چھوڑ چکے ہیں اور وہ تاجکستان پہنچ گئے ہیں۔
افغان وزارت داخلہ کیاعلیٰ عہدیدار نے تصدیق کردی ہے کہ اشرف غنی تاجکستان پہنچ گئے ہیں۔
تھوڑی دیر قبل افغان صدر اشرف غنی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا، اطلاعات ہیں کہ علی احمد جلالی کو نئی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔
اس سے قبل امریکی و برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان قیادت کے مطالبے پر کابل میں قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ اللہ کی ثالثی میں مذاکرات جاری ہیں اور امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔


غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اقتدار کی پُر امن منتقلی کیلیے آمادہ ہوگئی ہے جس کے بعد افغانستان کے سابق وزیر داخلہ علی احمد جلالی کو عبوری حکومت کا سربراہ ہوں گے۔
اب سے کچھ دیر قبل افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغان دارالحکومت کابل پر حملہ نہیں ہوا، کابل کا تحفظ افغان فورسز کی ذمہ داری ہے، انہوں نے کہا تھا کہ اقتدار کی منتقلی کا عمل پر امن طریقے سے ہوگا اور کابل میں شہریوں کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے گا۔
دوسری جانب بی بی سی کا کہنا ہے کہ طالبان کے کابل میں داخل ہوتے ہی بڑی تعداد شہریوں نے میں کابل سے نکلنا شروع کردیا ہے، جس کے باعث دارالحکومت میں شدید ٹریفک جام ہوگیا اور ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔
طالبان کی جانب سے کابل کے گھیراؤکے بعد افغان صدر اشرف غنی اور نائب صدر امراللہ صالح کے افغانستان چھوڑ جانے کی اطلاعات ہیں۔

 


برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے تاجک میڈیا کے حوالے سے دعویٰ کیا ہیکہ اشرف غنی نائب صدر امراللہ صالح کے ہمراہ کابل سے تاجکستان چلیگئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دونوں افراد تاجکستان کے درالحکومت دوشنبے میں ہیں اور ان کے وہاں سے کسی تیسرے ملک روانہ ہونیکا امکان ہے۔
خیال رہیکہ 20 سال بعد طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک بار پھر داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
افغان وزارت داخلہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان تمام اطراف سے کابل میں داخل ہو رہے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق کابل میں سرکاری دفاتر کو خالی کروا لیا گیا ہے اور طالبان نے کابل جانے والی تمام مرکزی شاہراؤں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ مجاہدین جنگ یا طاقت کے ذریعے کابل میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے،کابل کے پرامن سرینڈر کے لیے طالبان کی افغان حکام سے بات چیت جاری ہے۔
رتی محل میں مذاکرات جاری ہیں جس میں عبداللہ عبداللہ ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
افغان میڈیا کا کہناتھا کہ اشرف غنی اقتدار چھوڑنے کے لیے رضا مند ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ علی احمد جلالی کو نئی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا
افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار میرز کوال کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
طالبان کابل میں داخل ہونا شروع، دارالحکومت پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پاگیا.قائم مقام افغان وزیر داخلہ نے بتایا کہ معاہدے کے تحت عبوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی پرامن ماحول میں ہوگی۔اس سے قبل افغان میڈیا کا کہنا تھا کہ طالبان کو اقتدار کی منتقلی کے لیے افغان صدا.
کابل: طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے، ترجمان طالبان نے کہا ہے کہ کابل بڑا شہر ہے طاقت کے زور پر داخل نہیں ہوں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغانستان کی صورتحال مزید کشیدہ ہوتی جارہی ہے، 34 میں سے 21 صوبائی دارالحکومت افغان طالبان کے کنٹرول میں آچکے ہیں جب کہ طالبان نے وفاقی دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے۔
افغان وزارت داخلہ نے افغان طالبان کے کابل میں داخلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان دارالحکومت میں افغان فورسز اور طالبان میں فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
افغان وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ کابل میں سرکاری عمارتیں خالی کرا لی گئیں ہیں جب کہ امریکا نے سفارتی عملے کو کابل سے نکالنے کیلیے ہیلی کاپٹر سفارتخانے پہنچا دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا نے افغان حکام کے حوالے کہا کہ طالبان کلاکان، قارہ باغ اور پغمان میں داخل ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ کابل کے راستے پُرامن طریقے سے داخل ہونے کا ارادہ ہے، کابل میں طاقت کے زور پر داخل نہیں ہوں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ کابل میں داخلے سے قبل افغان حکومت سے مذاکرات جاری ہیں تاکہ محفوظ طریقے سے حکومت کی منتقلی ہو۔
ترجمان طالبان نے مزید کہا کہ کابل بڑا شہر ہے اسی لیے طاقت کے زور پر داخل نہیں ہوں گے، حکومت بات کررہے ہیں تاکہ وہ رضاکارانہ طور پر حکومت طالبان کے حوالے کریں۔