سینٹ قائمہ کمیٹی مواصلات نے این ایچ اے کو ”کامیاب ٹھیکیدار پروگرام” کا ادارہ قرار دیدیا
تین سالوں میں شاہراؤں کے منصوبوں کی لاگت میں اضافے کی تفصیلات طلب، مراد سعید کی اجلاس میں عدم شرکت پر ارکان واک آؤٹ کر گئے
چند ارب روپے کے منصوبے کی کئی گنا لاگت بڑھ جاتی ہے ،سڑکوں کے لیے کھدائی کر کے سرکاری پیسے کو دفن کر دیا جاتا ہے ، ارکان
#/H
آئٹم نمبر…64
اسلام آباد(ویب  نیوز)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات نے این ایچ اے کو ”کامیاب ٹھیکیدار پروگرام” کا ادارہ قرار دے دیا، ارکان نے کہا ہے کہ چند ارب روپے کے منصوبے کی کئی گنا لاگت بڑھ جاتی ہے ،سڑکوں کے لیے کھدائی کر کے سرکاری پیسے کو دفن کر دیا جاتا ہے،کمیٹی نے تین سالوں میں شاہراؤں کے منصوبوں کی لاگت میں اضافے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں جبکہ وزیر مواصلات مراد سعید کی اجلاس میں عدم شرکت پر ارکان واک آؤٹ کر گئے۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرنس عمر احمد زئی کے زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ وزیر مواصلات، سیکرٹری مواصلات اور چیئر مین این ایچ اے کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ وزیر مواصلات مسلسل تیسرے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔ وزرا  عوامی مسائل کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔  کمیٹی اجلاسوں میں وزرا کی عدم شرکت سے معاملات متاثر ہوتے ہیں۔ سینیٹر دنیش کمار اور سینیٹر کامل علی آغا نے وفاقی وزیر کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر احتجاجا واک آؤٹ بھی کیا۔   ۔قائمہ کمیٹی کی طرف سے وزیر مواصلات کو اظہار ناپسندیدگی کا خط لکھ دیا گی ہے ۔۔سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے نامکمل منصوبوں تخمینہ لاگت بڑھنے  ناقص تعمیراتی کاموں مقررہ مدت میں منصوبے مکمل نہ ہونے کے معاملات اٹھائے۔وزارت سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ممبر  پلاننگ وزارت مواصلات نے بتایا کہ منصوبوں کیلیے حکومت کی طرف سے فنڈز قرض کی صورت میں دیئے جاتے ہیں۔وزارت مواصلات  پر 2.3 کھرب روپے کے بھاری قرضے ہیں سڑکوں کی حالت زیادہ خراب ہو گئی تو ورلڈ بینک سے بھاری سود پر قرضے لینے پرے۔سالانہ 60 سے 70ارب مینیٹینس کے لیے چاہیے۔35 ارب روپے ٹول ٹیکس  سے وصول کیے جاتے ہیں۔این ایچ اے کو صرف جی ٹی روڈ سے ٹول ٹیکس مل رہا ہے موٹر ویز اور دیگر شاہراؤں سے جمع ہونے والا ٹول ٹیکس  قرض دہندہ بینک یا ادارے کو جا رہا ہے پاکستان میں 13000 کلو میٹر سڑکیں ہیں کامل علی آغا نے کہا کہ متعلقہ بینک یا کمپنی ٹول ٹیکس کے حوالے سے عوام کو ذبح کر رہی ہیں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ٹول ٹیکس میں اضافہ کے لیے کوئی ضابطہ کار نہیں ہے 160 روپے سے ٹول ٹیکس 960 روپے تک پہنچ گیا ہے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا ہ 10 ارب روپے کا منصوبہ 20,25 ارب روپے میں مکمل کیا جاتا ہے کوئی منصوبہ ٹینڈر کے مطابق مقررہ لاگت میں مکمل ہیں ہوتا کامل علی آغا نے کہا کہ این ایچ اے کا ”کامیاب ٹھیکیدار پروگرام” کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ٹھیکیدار کامیاب این ایچ اے ناکام ہے ادارے کی کارکردگی صفر جبکہ ٹھیکیدار مال کما رہے ہیں 2008 کا ٹول ٹیکس کا سسٹم بحال ہونا چاہیے حکام نے بتایا کہ سی پیک کا ہکلہ ڈیرہ اسماعیل خان مغربی روٹ کا 93 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے 30 ستمبر 2021ء کو افتتاح متوقع ہے۔مغربی روٹ کے اس سیکشن کی لمبائی 285 کلو میٹر ہے فنڈز کی عدم دستیابی پر تکمیل میں تاخیر ہو سکتی ہے ریلوے ٹریک اور بعض مقامات پر پل کے کام نامکمل ہیں کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ تین سالوں میں 105 منصوبوں کی منظوری دی گئی 81 مکمل ہو چکے ہیں 35 منصوبے نامکمل ہیں کمیٹی نے مقررہ مدت میں منصوبے مکمل نہ ہونے کی وجوہات سے آگاہی کی ہدایت کر دی ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ خضدار رتو ڈیرو کے ایک سیکشن کے حوالے سے رپورٹ طلب کی تھی۔ دو کلو میٹر رہ گیا تھا اس حوالے سے کوئی رپورٹ فراہم نہیں کی گئی۔ منصوبے کا ٹینڈر 2013 میں ہوااور 2018 میں دو کلو میٹر کے علاوہ باقی منصوبہ مکمل ہو گیا۔ کمیٹی نے رپورٹ مانگی ہے کہ ریٹ فکس کیا گیا تھا، کتنی پیمنٹ کی گئی اور کس حساب سے کی گئی ہے مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ جو کمپنی اس پر کام کر رہی تھی وہ پانچ دفعہ بلیک لسٹ ہو چکی تھی۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ۔کوئٹہ ڈھاڈر سیکشن 118 کلو میٹر پر مشتمل ہے جس کو اپ گریڈ اور چوڑا کرنے منصوبے پر پہلے ہی منصوبہ بندی کی گئی ہے PC-II اور TORs کی منظوری بھی ڈی ڈی ڈبلیو پی کی آنے والی میٹنگ حاصل کر لی جائے گی۔ کوئٹہ ڈھا ڈر کا پی سی ون اگلے سال مارچ تک بن جائے گا۔ این ایچ اے کو موٹر وے بنانے پر کوئی اعتراض نہیں، اس پر پندرہ سے بیس ارب روپے لاگت آئے گی۔اس سے کہیں زیادہ شکایات ہمیں کراچی کوئٹہ اور کراچی خضدار کے حوالے سے ہیں۔ کوئٹہ جیکب آباد کا 83 ارب روپے کا منصوبہ ہے صرف 3 ارب روپے دیے گئے ہیں۔این ایچ اے کو پی ایس ڈی پی کے منصوبہ جات کیلئے حکومت قرض دیتی ہے۔ این ایچ اے کے اوپر 2.3 کھرب کا قرض ہو چکا ہے۔ موٹر ویز کو اچھی حالت میں لانے کیلئے 60 سے70 ارب روپے درکار ہیں جبکہ ٹال ٹیکس 35 ارب روپے ملتا ہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی ہے کہ  لاہور سے اسلام آباد اور لاہور سے فیصل آباد اور پشاور کتنا ٹال ٹیکس اکھٹا ہوتا ہے اس کی علیحدہ تفصیلات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ٹال ٹیکس ان سیکشنز سے وصول کیا جاتا ہے جبکہ خرچ دیگر حصو ں میں زیادہ کیا جاتا ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیشنل ہائی وے پر ٹریفک کی تعداد 8 سے10 ہزار گاڑیاں یومیہ ہیں اس کو موٹر وے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کو دوریہ بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ کچھ جگہوں پر ایک طرف دریا اور دوسری جانب ریلوے ٹریک ہے دو رویہ نہیں بنایا جا سکتا۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ سبی سے جیکب آباد تک کوئی ایشو نہیں وہاں دو رویہ بنایا جائے۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ہر سال ٹال ٹیکس نہیں ہوشربا اضافہ کر دیا جاتا ہے مگر حاصل ہونے والے ٹیکس کا استعمال کہیں نظر نہیں آتا۔کس طریقہ کار اور کس قانون کے تحت عوام سے اتنا زیادہ ٹال ٹیکس وصول کیا جارہا ہے اس کی تفصیلات تحریری طور پر فراہم کی جائیں۔ دنیا بھر میں ایک طریقہ کار کے مطابق ٹال ٹیکس میں اضافہ کیا جاتا ہے مگر یہاں ٹھیکداروں کو نوازا گیا ہے۔سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ منصوبہ جات کے ابتدائی تخمینہ صحیح نہیں لگائے جاتے۔ ٹھیکدار ابوں کا منافع کماتے ہیں اور خوار عوام ہوتی ہے۔ M-9کراچی حیدر آباد منصوبے کی تفصیلات قائمہ کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔جون2008سے جون2021تک کے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے وہ منصوبہ جات جن کی مالیت ایک ارب سے زائد بنتی ہے کی تفصیلات  پیش کی جائیں۔ کتنے اپنے مقررہ وقت میں اور ابتدائی لاگت میں مکمل ہوئے ہیں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ارکان نے کہا کہ10ارب کا منصوبہ 25ارب میں مکمل کیا جاتا ہے ان تمام منصوبہ جات کی ابتدائی لاگت، ٹینڈر کی تاریخ، ٹینڈر کی کاسٹ، بڈ کاسٹ وغیر ہ کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ 2010میں سیلاب کے دوران مختلف اداروں کو فنڈز دیئے گئے تھے ان تمام منصوبہ جات اور فنڈز اخراجات کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ خاص طور پر مالا کنڈ ڈویژن کیلئے این ایچ اے کے گزشتہ تین سالوں کے دوران منظور شدہ منصوبہ جات کی تفصیلات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے 1497کلو میٹر کے 19منصوبہ جات ہیں جن میں سے کچھ مکمل ہو چکے ہیں اور کچھ پر کام جاری ہے۔ حویلیاں ایکسپریس کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔ چترال، گرم چشمہ کے منصوبے کیلئے پرویکورمنٹ کا عمل جاری ہے۔اکتوبر، نومبر تک کنڑیکٹ شروع کر سکتے ہیں۔برہان ہکلہ ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے 285کلو میٹر پر مشتمل ہے 93فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، ستمبر تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ فنڈنگ میں تاخیر کی وجہ سے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔ پنڈی گھیپ اور کوہاٹ روڈ کو دو رویہ بنانے کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس منصوبے پر دو حصوں میں عمل کیا جارہا ہے۔ پیکج ون کا 83 فیصد جبکہ پیکج ٹو کا 65 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ دسمبر 2021 تک منصوبہ مکمل کر لیا جائے گا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ شاہراہ قراقرم کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے اس پر سامان بردار ٹریفک چل نہیں سکتی یہ سی پیک منصوبے میں شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اس کی حالت انتہائی خراب ہے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ناران میں این ایچ اے گیسٹ ہاؤس کو  پرائیوٹ بندے کو دینے پر بھی تفصیلی رپورٹ طلب کی گئی ہے ۔qa/aa/nsr
#/S