متحدہ اپوزیشن کا پارلیمنٹ میں منظور کردہ ای وی ایم سمیت دیگر قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان

آج پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، شہباز شریف…  آج مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جیت نہیں شکست ہوئی ،بلاول

کلبھوشن کو آج این آر او دیا گیا، اس حوالے سے ہماری ترامیم کو نہیں سنا گیا، سینیٹر مشتاق احمد

حکومت کے پاس 212 اراکین بھی نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کی گنتی کو غلط پیش کیا گیا….اپوزیشن رہنماو ں کی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد( ویب  نیوز)

متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کئے گئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق بل اور دیگر بلز کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ غیرآئینی اور غیر قانونی طریقے سے قانون سازی کی گئی ہے، جس کو ہم نہیں مانتے/۔ ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر نے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما شہباز شریف اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگر بلز کو عدالت میں چیلنج کریں گے، بلز منظور کرنے کے لیے مشترکہ اجلاس کو استعمال کیا گیا، قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے مشترکہ اجلاس میں ترامیم منظور کیے جانے پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ اسپیکر نے پارلیمنٹ کے رول پاں تلے روندھا ہے، رول 10 کے تحت مشترکہ اجلاس کے لیے 222 اراکین کی اکثریت ضروری ہوتی ہے، لیکن حکومت کے پاس 212 اراکین بھی نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کی گنتی کو غلط پیش کیا گیااور ہم نے اسپیکر سے باربار درخواست کی کہ ڈویژن کروائیں، یہ ووٹنگ کی گنتی غلط ہے، ان اراکین اتنی تعداد میں موجود نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر 221 ووٹ پر تلے ہوئے تھے، ہم نے آئین اور قانون کے حوالے سے کیے لیکن اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں مانی اور آج ای وی ایم اور دوسرے بل منظور کروانے پر تلے ہوئے تھے۔شہباز شریف نے کہا کہ جس طریقے سے بلڈوز کرتے گئے،ہم نے احتجاج کیا اور اسپیکر پاس گئے اور کہا آپ بہت زیادتی کر رہے ہیں اور بتایا کہ آپ نے کہا تھا پارٹی لائن سے باہر نکل کر کردار ادا کروں گا لیکن یہاں بالکل اس کے الٹ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں سنی، بطور قائد حزب اختلاف میرا استحقاق ہے کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کروں لیکن اسپیکر نے میرا مائیک نہیں کھولا،ان کا کہنا تھا کہ ہماری بھرپور تعداد تھی، چند اراکین بیمار تھے وہ نہیں تھے لیکن دیگر اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز موجود تھے، ہماری بھرپور تعداد تھی لیکن اسپیکر پی ٹی آئی کا حواری بنا ہوا تھا، جس طرح نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے، آج اسپیکر پی ٹی آئی گٹھ جوڑ نے بھرپور کام دکھایا۔ان کا کہنا تھا کہ آج پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ای وی ایم جس کو الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا ہے اور ہم نے تفصیل سے بات بتائی کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں کہ دنیا کے 167 ممالک میں سے صرف 8 ممالک میں یہ چل رہا ہے اور9 ممالک اس کو چھوڑ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے آرٹی ایس سے جان نہیں چھوٹی، جس نے ایک دھاندلی زدہ حکومت اور جعلی حکومت کو قوم پر مسلط کردیا ہے، مہنگائی بے روزگاری نے پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی کمر توڑ دی ہے اور اب یہ ای وی ایم مسلط کرنا چاہتے ہیں یہ نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے ہماری کوئی بات نہیں سنی، قانون، قاعدے اور رولز کو پاں تلے روندھا اور دھجیاں اڑائیں، جس کے بعد ہم وہاں سے آئے تاکہ پوری قوم کو بتائیں کہ اس ہاس کے اندر قوم کی قسمت سے کس طرح کھیلا جارہا ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میں نے کہا کہ عمران خان نیازی آپ جتنا زور ای وی ایم پر لگارہے ہیں اگر یہ زور مہنگائی اور بے روزگاری پر لگاتے تو شاید ملک کے حالات اتنے برے نہ ہوتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس موقع پرپی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ پورے ملک کو پتہ ہونا چاہیے کہ آج مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جیت نہیں شکست ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشترکہ اجلاس اور معمول کے اجلاس کے قواعد الگ ہوتے ہیں اور اسپیکر کو دھیان دلانے اور حکومت کو توجہ دلانے کی کوشش کی، 1993 کا مشترکہ اجلاس کا رول ہے وہ یہ کہتا ہے کہ مشترکہ اجلاس سے بل منظور کرنے کے لیے حکومت کے پاس دونوں ایوان کی مجموعی تعداد کا دھا ووٹ ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر قومی اسمبلی کے 342 اور سینیٹ 100 اراکین ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مشترکہ اجلاس سے بل منظور کروانے کے لیے حکومت کے پاس 222 ووٹ کم ازکم ضروری ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپوزیشن کے کتنے اراکین حاضر ہیں یا غیرحاضر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی بینچز میں اراکین کی تعداد 222  سے زیادہ نہیں بنتی ہے تو وہ جو قانون بنانا چاہ رہے ہیں وہ نہیں بنتا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر ای وی ایم اور کلبھوشن یادیو کے این آر او کے لیے یہ قانون قاعدے کے مطابق ہیں تو ہم اس کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، ای وی ایمز پر الیکشن کمیشن کو بھی سمجھائیں گے، کہ آج ای وی ایم کا قانون نہیں بنا اور آج کلبھوشن یادیو کو این آر او نہیں دیا گیا، وہ اس لیے کہ حکومت نے تعداد پوری نہیں کی اور پارلیمنٹ کے تمام قاعدے ایک سائیڈ پر رکھ کر یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ میڈیا سے اپیل ہے اور آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ قوم کو سمجھائیں کہ حکومت ناکام رہی ہے، یہ قانون آج پاکستان کا قانون نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن ہر فورم اور ہر پلیٹ فارم پر انتخابی ای وی ایم کی بات ہو، کلبھوشن کے این آر او کی بات ہو، آئی ایم ایف کی غلامی کی بات ہو ہم متحدہ ہیں اور ہر فورم پر ان مسائل کو چیلنج کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ جب ملک پریشانی میں ہے، عوام تکلیف میں ہیں، ملک اس پارلیمان کی طرف دیکھ رہا ہے کہ سیاست دان جمع ہوئے ہیں شاید وہ ہمارے مسائل پر بات کریں گے، شاید مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل حل کرنے پر بات کریں گے، عوام کے مسائل کم کرنے کے بجائے، پارلیمان عوام کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے، یہ قابل مذمت بات ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میں متحدہ اپوزیشن کو مبارک باد دینا چاہوں گا کہ آپ نے معمول کے سیشن میں حکومت کو شکست دی، پچھلے مشترکہ اجلاس میں حکومت کو بھاگنے پر مجبور کیا اور آج بھی حکومت ناکام رہی اور اپنی 222 کی تعداد پوری نہیں کرسکی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمارے مطابق اپنی قانونی سازی مکمل نہیں کرسکی ہے ،اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر اسعد محمود نے کہا کہ ہم نے ابتدا میں ہی کہہ دیا تھا کہ یک طرفہ کارروائی قوم تسلیم نہیں کرے گی اور انہیں پھر دعوت دی کہ آپ کو کیا جلدی ہے اگر قوم کے مفاد میں قانون سازی کر رہے ہیں تو اپوزیشن آپ کی دعوت قبول کر چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے دھاندلی کے ذریعے بل منظور کیے ہیں تو ان سے کوئی توقع کیسے کرسکتا ہے کہ 22 کروڑ عوام کو عام انتخابات میں شفاف انتخابات دے سکتے ہیں۔اسعد محمود نے کہا کہ پوری قوم کے سامنے جس طریقے سے ایوان چلایا اپوزیشن باربار کہتی رہی، ہمارے اراکین اپنی ترامیم پر بات نہیں کرسکے، قائد حزب اختلاف، پارلیمانی لیڈر اور سینیٹرز بات نہیں کرسکے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کوئی اتحادی ان کے حق میں کھڑا نہیں ہوا اور تسلیم کیا ہو ہم اپنی مرضی سے ووٹ کر رہے ہیں، ان کے چہرے سے عیاں تھا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کل کہا تھا کہ جبر کی بنیاد پر ان کا انتظام کیا گیا ہے اور ہم برملا کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے اداروں نے یہ قانون سازی انتظام کی ہے، ہم ببانگ دہل کہتے ہیں اور قطعا تسلیم نہیں کرتے اور ہر فورم پر اس کو لے کر جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے اور اس دروازے پر بھی عوام کو لائیں گے جبر ہے تو جبر کا مقابلہ جبر کیساتھ ہوگا، ہم اس میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں۔جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ کلبھوشن کو فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی ہے لیکن اس کو آج این آر او دیا گیا ہے اور اس حوالے سے ہماری ترامیم کو نہیں سنا گیا۔انہوں نے کہا کہ آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں سوگ ہے، چند دن پہلے سری نگر سے دبئی کے لیے پروازیں شروع کی تھی اور اب کلبھوشن کو این آر او دے دیا ہے۔رہنما جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، حکومت نے کشمیر کا سودا کیا ہے، تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے، مودی کی یاری اور دوستی کا ثبوت پارلیمنٹ میں دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ای وی ایم ڈیجیٹل دھاندلی کا منصوبہ ہے، جو حکومت پارلیمنٹ کے اندر ڈیجیٹل ووٹنگ اپنے پپارلیمنٹیرین کی نہ کراسکے، جو ایف بی آر کے ڈیٹا کو محفوظ نہ کرسکے، جو نیشنل بینک آف پاکستان کو محفوظ نہ کرسکے وہ 22 کروڑ عوام اور 15 کروڑ ووٹرز کے لیے ای وی ایم کا منصوبہ بنا رہی ہے۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ فراڈ ہے، الیکشن کمیشن کے اختیارات اٹھا کر انتظامیہ اور نادرا کو دینا، ای وی ایم کے ذریعے مستقل کے ووٹ چوری کرنے کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں سناگیا حالانکہ اپوزیشن کی درجنوں ترامیم تھیں، قانون کی نام پر سب سے بڑی لاقانونیت حکومت اور اسپیکر نے کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ متحدہ پارلیمانی اپوزیشن نے آج جس طرح ایک اتحاد کامظاہرہ کیا ہے، ہم آئندہ بھی اس حکومت کی الیکشن چوری کرنے، مودی اور بھارت سے یاری کی جتنی بھی کوششیں ہوں گی، تحریک آزادی کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی جتنی بھی کوششیں ہوں گی، اس کے خلاف متحدہ اپوزیشن اسی طرح، اتحاد کا مظاہرہ کرے گی۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیرحیدر ہوتی نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے لیے قانون سازی کی گئی لیکن پاکستان کے ایک شہری اور منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر اس وقت زیر حراست ہے لیکن اسپیکر نے اتنا گوارا نہیں کیا کہ اس کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، اسپیکر کو ہاس کا سربراہ ہونا چاہیے، پچھلے دنوں مذاکرات کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا اور آج جو ان کا کردار تھا بدقسمتی سے اسپیکر صاحب اب مکمل طور پر متنازع ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کی کچھ روایات رہی ہیں لیکن آج ان روایات کو روندھا گیا ہے، غیرآئینی اور غیر قانونی طریقے سے قانون سازی کی گئی ہے، جس کو ہم نہیں مانتے۔امیر حیدر ہوتی کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات جو اصل میں سلیکشن تھے، ابھی اس کا تنازع ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک نیا تنازع کھڑا کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئندہ الیکشن جب ہوں گے، حکومت نے آج سے ہی متنازع بنادیا ہے، ای وی ایم کا قانون منظور کرکے آج ہی انتخابات پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات الیکشن کمیشن کا کام ہے اور الیکشن کمیشن خود ای وی ایم سے متفق نہیں ہے تو لہذا ہم نے پارلیمنٹ کے فلور پر عوام کی نمائندگی کی۔رہنما اے این پی نے کہا کہ آنے وا لے دنوں میں اور کوئی راستہ نہیں رہا تو سیاسی اور پارلیمانی معاملات عدالتوں میں جائیں گے کہ حکومت نے ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔۔

#/S