سری لنکن منیجرکے قتل پر 900افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ
راجکو فیکٹری کے اندر 900کے قریب افراد ڈنڈے سوٹے لئے موجود تھے ، ایف آئی آر
واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوئوں کا جائزہ لیا جارہا ہے، وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت
سیالکوٹ/لاہور( ویب نیوز)سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کے تشدد سے سری لنکن منیجرپریانتھا کمارا کی ہلاکت پر تھانہ اگوکی پولیس نے سب انسپکٹر کی مدعیت میں 900افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا جبکہ مرکزی ملزم فرحان ادریس کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق راجکو فیکٹری کے اندر 900کے قریب افراد ڈنڈے سوٹے لئے موجود تھے ،
تمام افراد سری لنکن شخص کی لاش کو سڑک پر گھسیٹ رہے تھے، نفری ناکافی ہونے کے باعث ہجوم کو نہ روکا جا سکا۔ایف آئی آر کے مطابق ہجوم نے نعش سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی ، ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا کہ ہجوم نے مذہبی توہین کے الزام میں سری لنکن شہری کو قتل کیا، ملزمان نے سری لنکن شہری کو قتل کر کے اس کی لاش کی بے حرمتی کی۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے مزید کارروائی شروع کر دی۔رپورٹ کے مطابق واقعہ صبح گیارہ بج کر چھبیس منٹ پر پولیس کو رپورٹ ہوا، اس وقت فیکٹری کے ورکرز سڑک پر آچکے تھے جس کے باعث پولیس کو پہنچنے میں تاخیر ہوئی، فیکٹری کی مشین پر مذہبی حوالے سے ایک اسٹیکر لگا تھا، کچھ غیر ملکیوں نے فیکٹری کو وزٹ کرنا تھا، منیجر نے مبینہ طور پر اسٹاف کو اس اسٹیکر کو ہٹانے کا حکم دیا، جب فیکٹری ملازمین نے اسٹیکر نہیں ہٹایا تو منیجر نے ہٹا دیا، واقعہ کے بعد فیکٹری مالکان اور انتظامیہ غائب ہو گئی۔پولیس نے سی سی ٹی وی ریکارڈنگ قبضے میں لے لی اور اسپیشل ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس فوٹیج کو دیکھ رہی ہے جس کے زریعے ملزمان تک پہنچا جارہا ہے۔وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا کہ واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوئوں کا جائزہ لیا جارہا ہے، ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی گی، اب تک کی تحقیقات سے متعلق وزیراعظم عمران خان کو ابتدائی رپورٹ بھجوا دی گئی ہے۔
سری لنکن منیجر نے غلط فہمی پر ملازمین سے معذرت کی تھی، پولیس تحقیقات
سڑک بند ہونے سے پولیس کی نفری کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوئی، ڈی پی او بھی خود پیدل بھاگ کر جائے وقوعہ پر پہنچے، تحقیقات
پولیس کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیالکوٹ میںوقوعہ کے وقت فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن منیجرنے صبح 10 بج کر28 منٹ پردیوارپر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو اس دوران فیکٹری منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازع ہوا۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیکٹری منیجر زبان سے نا آشنا تھا جس وجہ سے اسے کچھ مشکلات درپیش تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کیساتھ تنازع حل کرایا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کردیا۔ تحقیقات کے مطابق فوٹیج سے پتا چلا کہ صبح 10 بج کر 40 منٹ پر منیجر کو عمارت سے نیچے گرایا گیا اور مشتعل افراد اسے گھسیٹ رہے تھے، منیجر کو مشتعل ملازمین نے اندر ہی مار دیا تھا، جس وقت اسے نیچے گرایا تھا وہ بے سدھ ہوچکا تھا اور غالب امکان ہے کہ نیچے گرانے سے منیجر کی موت واقع ہوچکی تھی، اس کے بعد منیجر کی نعش کو گھسیٹ کر فیکٹری ایریا سے باہر لایا گیا۔تحقیقات کے مطابق گارمنٹ فیکٹری میں 13سکیورٹی گارڈز تعینات تھے لیکن واقعے کے وقت تمام گارڈز بھی موقع سے فرار ہوگئے جس کے بعد ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش گھسیٹ کر باہر لے آئے، 11بج کر 28منٹ پر پولیس کو ون فائیو پر اطلاع دی گئی تو مقامی ایس ایچ او جائے وقوعہ پر پہنچے، صورتحال خراب دیکھ کر انہوں نے ڈی پی او کو کال کی جس پر ڈی پی او نے 27انسپکٹرز کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی اور بھاری نفری کو طلب کرلیا۔تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ سڑک بند ہونے سے پولیس کی نفری کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور ڈی پی او بھی خود پیدل بھاگ کر جائے وقوعہ پر پہنچے مگر ان کے پہنچنے تک ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش کو جلا چکے تھے۔
#/S