ایک میٹنگ 21 فروری 2013 کو ہوئی تھی اور دوسری میٹنگ 5 سال بعد 28 مارچ 2018 کو ہوئی،ممبر این ڈی ایم اے
افسوس کی بات ہے کہ میٹنگ ہوتی تیاری ہوتی تو قیمتی جانوں کا نقصان نہ ہوتا، آپ ناکام ہوئے ہیں،چیف جسٹس اطہر من اللہ
عدالت نے وزیر اعظم کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی میٹنگ بلانے اورواقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کردی
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ مری میں ہلاکتوں کی ذمہ دار پوری ریاست ہے۔جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے مری کے رہائشی حماد عباسی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست گزار نے کہا کہ جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جا رہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا اور نہ خدشے سے آگاہ کیا، انتظامیہ قصور وار ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)کے ممبر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ان 22 لوگوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہے ؟ پارلیمنٹ نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون بنایا ہے 2010 سے اس پر عمل درآمد ہونا تھا ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی آج تک کبھی میٹنگ ہوئی ہے ؟۔ممبر این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ ایک میٹنگ 21 فروری 2013 کو ہوئی تھی اور دوسری میٹنگ 5 سال بعد 28 مارچ 2018 کو ہوئی۔چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے ممبر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ میٹنگ ہوتی تیاری ہوتی تو قیمتی جانوں کا نقصان نہ ہوتا، آپ ناکام ہوئے ہیں ، آپ کی ذمہ داری تھی کہ میٹنگ بلاتے اس علاقے کے لیے نیشنل مینجمنٹ پلان دیتے، آپ نے اس قانون پر عمل درآمد کرانا تھا، اگر اس قانون پر عمل ہوا ہوتا تو ایک شہری کی بھی ہلاکت نہ ہوتی ، اس کیس میں تو کوئی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، صرف اس قانون این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا، اگر ڈسٹرکٹ پلان ہوتا تو یہ نہ ہوتا جو کچھ ہوا اس میں تو انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، سب لگے ہوئے ہیں مری کے لوگ اچھے نہیں ان کا کیا قصور ہے ؟،بلاوجہ سب مری کے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔چیف جسٹس نے ممبر این ڈی ایم اے سے کہا کہ وزیراعظم آج ہی کمیشن کی میٹنگ بلائیں جو ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں ، این ڈی ایم اے نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ، گیارہ سال میں یہ نہیں بتا سکے کہ ڈسٹرکٹ پلان ہے یا نہیں ، کوئی ہوٹل والا روپیہ نہیں لے سکتا تھا جب ڈسٹرکٹ پلان بنا ہوا ہوتا ، سب ویسے ہی مری والوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، ہم آرڈر کرتے وزیراعظم آئندہ ہفتے کمیشن کی میٹنگ بلائیں، کمیشن سے متعلقہ قانون پر عمل درآمد نہ کرانے والوں کی ذمہ داری مقرر کریں، جو سانحے میں فوت ہوئے ان کے ذمہ داروں کا بھی تعین کیا جائے، خدانخواستہ اگر آپ کے بچے اس سانحے میں ہوتے تو آپ کیا کرتے۔ ممبر این ڈی ایم اے نے کہا کہ قانون میں واضح لکھا ہے کہ مرکزی صوبائی اور ڈسٹرکٹ لیول پر ذمہ داروں کا تعین موجود ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر این ڈی ایم اے سے کہا کہ پوری ریاست ان ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے، اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست ذمہ دار ہے، اگر نیشنل کمیشن کی میٹنگ 2018 کے بعد نہیں ہوئی تو آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آج آپ وزیر اعظم کو لکھیں کہ وہ نیشنل کمیشن کی آئندہ ہفتے کے لیے میٹنگ بلائیں ، سارے طاقتور اس کمیشن میں موجود ہیں ، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بھی اس کمیشن کے ممبر ہیں ، اس سے اہم کچھ ہو سکتا ہے 9 بچوں کا کیا کوئی قصور تھا ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی میٹنگ بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی میٹنگ کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، آج تک ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کے قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا میٹنگ کے سامنے رکھیں، کمیشن میٹنگ میں مری واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین بھی کیا جائے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی مزید سماعت آئندہ جمعہ تک ملتوی کردی۔