سپریم کورٹ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کاتفصیلی فیصلہ جاری

اس عدالت کے جج  سمیت کسی شخص کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا

سیرینا عیسی کو سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیاحالانکہ آئین کے تحت شفاف ٹرائل بنیادی حق ہے،

دس رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے سرینا عیسی کے حق میں فیصلہ سنایا

اسلام آباد (ویب  نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیاعدالت نے 9 ماہ دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیاہے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریری کیا ، عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظورکرلی ہیں۔دس رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایاہے ۔ سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا۔ اکثریتی تحریری فیصلہ جسٹس مقبول باقر جسٹس مظہر عالم ،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس امین الدین نے تحریر کیا، عدالت نے قراردیا ہے کہ یہ فیصلہ واضح الفاظ کیساتھ سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں،دوسری طرف کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ ہر شہری اپنی زندگی،آزادی،ساکھ،جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے،آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 تک ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں،اگر کوئی شہری  پبلک آفس ہولڈر ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے، قطع نظر کسی عہدہ یا پوزیشن کے ہر پاکستان قانون کے مطابق یکساں سلوک کا حقدار ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے  کے حوالے سے سیرینا عیسیٰ کا موقف نہیں سنا گیا تھا، سیرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیاحالانکہ آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سیرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا، عدالت نے لکھا ہے کہ سیرینا عیسیٰ اور انکے بچے عام شہری، انکے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں،سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جا سکتا،سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے،عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کیخلاف اپیل اثرانداز نہیں ہوگی، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہوجاتے،جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کیخلاف اپیل سیرینا عیسیٰ کے حق میں بھی آ سکتی تھی، برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے، فیصلہ کے مطابق ایسا بھی ممکن تھا کہ جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ تسلیم نہ کرتی،سوموٹو لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے۔ فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کیخلاف شکایت درج نہیں کروا سکتے، فیصلہ میں کہا گیا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف شکایت ہی تھی۔