مسلمان ہونا برطانوی رکن پارلیمنٹ نصرت غنی کا جرم بن گیا، ٹرانسپورٹ کی وزارت چھین لی گئی
سعیدہ وارثی کا نصرت غنی سے اظہار یکجہتی
لندن( ویب نیوز)مسلمان ہونا برطانوی رکن پارلیمنٹ نصرت غنی کا جرم بن گیا۔ 2020 میں ٹرانسپورٹ کی وزارت چھین لی گئی۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ نصرت غنی نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو انٹرویو میں انکشاف کیا، کہ انہیں مسلمان ہونے پر وزارت سے ہٹایا گیا۔ کہتی ہیں، 2020 میں کابینہ میں تبدیلیاں ہورہی تھیں، اس دوران برطانوی وزیراعظم کے دفتر میں اجلاس ہوا،، جہاں ان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابتدائی طور پر انہیں لگا کہ شاید کارکردگی میں کوئی کمی رہ گئی ہے لیکن پارٹی کے چیف وہپ نے بتایا کہ اجلاس میں ان کی مسلم شناخت پر بات ہوئی، پارٹی کے رہنما مسلم فرد کے کابینہ کاحصہ
بننے پرخوش نہیں تھے۔اپنے انٹرویو میں نصرت غنی نے کہا کہ نسلی تعصب کی وجہ سے خود کو کم تراور بے اختیارتصورکرتی رہی، مجھ پر پارٹی کے ساتھ وفادار نہ ہونے کا الزام لگایا گیا، دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی کے چیف وہپ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نصرت غنی سے کبھی اس موضوع پر بات نہیں ہوئی۔برطانوی لیبرپارٹی کے سربراہ سرکیئر اسٹارمر نے نصرت غنی کے ساتھ نسلی تعصب پر اظہار افسوس کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے،برطانیہ میں ہاوس آف لارڈز کی رکن بیرونس سعیدہ وارثی نے نصرت غنی سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نسل پرستی پر اپنوں کے خلاف آواز بلند کرنا اوراصولی موقف اختیار کرنا جرات مندانہ مگر مشکل کام ہے۔سعیدہ وارثی نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اسلاموفوبیا پر نصرت غنی کی آواز سنی جائے۔دوسری جانب لیبر لیڈر سر keir starmer نے بھی نصرت غنی سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ایک بیان میں انہوں کہا کہ نصرت غنی کے الزامات سے متعلق پڑھ کر نہایت افسوس ہوا، کنزرویٹوپارٹی کو ان الزامات کی مکمل فوری تحقیقات کرنا ہوگی۔رکن پارلیمنٹ انس سرور اور میئر لندن صادق خان نے بھی رویے کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔برٹش پاکستانی رکن پارلیمنٹ افضل خان کا کہنا ہے کہ ٹوری پارٹی میں ادارہ جاتی سطح پر اسلاموفوبیا واضح ہوگیا۔خاتون رکن پارلیمنٹ Anneliese نے کہا کہ انہوں نے اور افضل خان نے نومبر میں ٹوریز سے کہا تھا اسلامو فویبا سے نمٹیں لیکن جواب نہ آیا، عوام اب خود ہی نتیجہ نکال لیں گے