گستاخانہ مواد کی تشہیر۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کی درخواستوں کا اصل ریکارڈ موجود نہ ہونے پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سمیت پورے ڈیپارٹمنٹ کو جیل بھیجنے کی وارننگ
گستاخانہ مواد کے خلاف درخواستوں کا اصل ریکارڈ موجود نہیں تو ڈائریکٹر ایف آئی اے آئندہ سماعت پر جیل جانے کی تیاری کرکے آئیں۔فاضل جسٹس عامر فاروق
توہین رسالت و توہین مذہب سے سنگین کوئی معاملہ نہیں۔ایف آئی اے کی غفلت و کوتاہی ثابت ہوئی تو ڈی جی ایف آئی اے کو بھی جیل جانا ہو گا۔فاضل جج کے ریمارکس
اسلام آباد (ویب نیوز )
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل شیخ عامر کی جانب سے گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف درخواستوں کے متعلق غلط بیانی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف اصل درخواستیں موجود نہ ہوئیں تو ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ،ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل سمیت پورے ڈیپارٹمنٹ کو جیل بھیجیں گے۔عدالت عالیہ نے ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف بھی کاروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ توہین رسالت و توہین مذہب سے سنگین کوئی معاملہ نہیں ہے،اگر ثابت ہوا کہ ایف آئی اے نے اس معاملے میں کوئی غفلت برتی ہے تو ڈی جی ایف آئی اے کو بھی جیل جانا ہو گا۔تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر اور اس میں ملوث مجرمان کے خلاف کاروائی کے لئے تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے سینئر نائب صدر شیراز احمد فاروقی،جنرل سیکریٹری حافظ احتشام احمد اور محمد سعید کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت آج(پیر کو)اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس عامر فاروق نے مذکورہ پٹیشن کی سماعت کی۔درخواست گزاروں کی جانب سے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کا آغاز ہوا تو فاضل جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے نے گستاخانہ مواد کے خلاف درخواستوں کے متعلق رپورٹ جمع کرا دی ہے۔اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی،ہم نے تفصیلی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل شیخ عامر سے استفسار کیا کہ کیا رپورٹ ایف آئی اے نے دی ہے۔جواب میں ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے نے بتایا کہ 17 درخواستوں میں سے 13 درخواستیں انکوائری کے بعد مختلف وجوہات کی وجہ سے نمٹا دی گئیں۔باقی چار درخواستوں پر کاروائی کی گئی،ایف آئی آر درج کی گئی۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ جن درخواستوں کو نمٹا دیا گیا،اس کی کیا وجوہات ہیں۔اے ڈی لیگل ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ہم نے متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے تفصیلات مانگی تھیں،انہوں نے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے تفصیلات فراہم نہیں کیں تو ہم نے پی ٹی اے سے مذکورہ گستاخانہ مواد بلاک کروا کے درخواستیں نمٹا دی ہیں۔اس پر درخواست گزاروں کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے عدالت میں غلط بیانی کررہی ہے،ان کے پاس ہماری اصل درخواستیں ہی موجود نہیں ہیں۔ایف آئی اے نے ہماری درخواستیں گھما دی ہیں،اب فرضی رپورٹس عدالت میں جمع کرا ئی جارہی ہیں۔آج بھی ایف آئی اے جو ریکارڈ عدالت میں لائی ہے،ان میں اصل درخواستیں موجود نہیں ہیں۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے اس موقع پر اے ڈی لیگل ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ جن 13 درخواستوں کو آپ نے نمٹائی ہیں،وہ اصل درخواستیں کہاں ہیں۔اے ڈی لیگل ایف آئی اے نے جواب دیا کہ اصل درخواستیں ہمارے پاس موجود ہیں،ہم پیش کر دیتے ہیں۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے اے ڈی لیگل ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کا یہ بیان قلمبند کر لیتے ہیں،اگر اصل درخواستیں موجود نہ ہوئیں تو آپ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہو گی۔اگر اصل درخواستیں موجود نہ ہوئیں تو ہم آپ کو جیل بھیجیں گے۔عدالتی انتباہ کے بعد اے ڈی لیگل ایف آئی اے نے اپنا بیان بدلتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت ہمیں تھوڑا وقت دے دے،ہم ریکارڈ دیکھ کر بتاتے ہیں۔اے ڈی لیگل ایف آئی اے کے اس بیان پر فاضل جسٹس عامر فاروق نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ آئندہ سماعت پر تمام درخواستوں کا اصل ریکارڈ لیکر پیش ہوں۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایف آئی اے کے پاس تمام درخواستوں کا اصل ریکارڈ موجود نہ ہوا تو ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سمیت پورے ڈیپارٹمنٹ کو جیل بھیجیں گے۔توہین رسالت و توہین مذہب سے سنگین کوئی معاملہ نہیں ہے،اگر ثابت ہوا کہ ایف آئی اے نے اس معاملے میں کوئی غفلت برتی ہے تو ڈی جی ایف آئی اے کو بھی جیل جانا ہو گا۔اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے فاضل جسٹس عامر فاروق نے مزید ریمارکس دیئے کہ ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سے کہہ دیں کہ اگر اصل درخواستیں موجود نہیں ہیں تو آئندہ سماعت پر جیل جانے کے لئے تیاری کرکے آئیں۔اگر پٹیشنرز کو ہراساں کرکے ان سے دوبارہ درخواستیں لینے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج بھی بہت سنگین ہوں گے۔پاکستان ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف وغیرہ کے سامنے بار بار جارہا ہے،مگر توہین رسالت و توہین مذہب کے معاملے پر کچھ نہیں کررہا۔آپ لوگوں نے اگر قانون پر عمل نہیں کرنا تو کم سے کم اس معاملے کو اپنی ایمانی ذمہ داری سمجھ کر ہی دیکھ لیں۔کچھ تو خدا کا خوف کریں،کیا آپ لوگوں نے مر کر اللہ کے سامنے پیش نہیں ہونا۔ہر معاملے میں آپ لوگ جھوٹ بولتے ہیں،اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سچ بولیں۔اس موقع پر فاضل جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل سے استفسار کیا کہ جن درخواستوں پر آپ نے مقدمات کا اندراج کیا ہے،ان میں ٹرائل کہاں تک پہنچا ہے۔اسلام آباد میں مقدمات کا اندراج کرکے دو مقدمات کا ٹرائل پشاور میں کیوں کیا جارہا ہے۔درخواست گزاروں کو مقدمات میں مدعی کیوں نہیں بنایا گیا۔ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اور اے ڈی لیگل ایف آئی اے مذکورہ عدالتی سوالات کا کوئی جواب نہ دے سکے۔جس پر فاضل جسٹس عامر فاروق نے ایک دفعہ پھر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اور اے ڈی لیگل ایف آئی اے پراظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں کو کچھ احساس ہے کہ ہائیکورٹ میں کھڑے ہیں۔آپ لوگوں کی کوئی تیاری ہی نہیں ہے،ڈی جی ایف آئی اے کو طلب کر لیتے ہیں۔اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت چاہے تو ڈی جی صاحب کو بھی طلب کر سکتی ہے،مگر ہماری استدعا ہے کہ ایک دفعہ ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سے وضاحت لے لیجئے۔بعدازاں فاضل عدالت عالیہ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو آئندہ سماعت پر ٹرائل کورٹس میں زیر سماعت گستاخانہ مواد کی تشہیر کے متعلق تمام مقدمات کا بھی ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مذکورہ کیس کی مزید سماعت 21فروری تک ملتوی کر دی۔