مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فرنیچر انڈسٹری کو کاٹیج سے جدید اختراعی صنعت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، میاں کاشف اشفاق

لاہور ( ویب  نیوز)

فرنیچر انڈسٹری کو ٹریننگ، سپلائیز اور امپورٹ کو اپ گریڈ کرکے، ووڈ ورک انسٹی ٹیوٹ کے قیام اور بین الاقوامی معیار کی ٹیسٹنگ لیبارٹریز کے ذریعے کاٹیج یا چھوٹے پیمانے کی صنعت سے جدید اختراعی صنعت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان فرنیچر کونسل میاں کاشف اشفاق نے اتوار کو یہاں ابراہیم کلیم کی قیادت میں ہارڈ ویئر کے تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی تجارتی نمائشوں میں باقاعدہ شرکت کے ذریعے فرنیچر کی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے بھرپور کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب حکومت اس کیلئے تیار اور فرنیچر کے تاجروں میں وژن ہو۔ انہوں نے کہا کہ فرنیچر کی عالمی تجارت کا تخمینہ 23.2 بلین ڈالر ہے جس میں لکڑی کے فرنیچر کا حصہ 77 فیصد، دھاتی فرنیچر کا حصہ 17 فیصد اور پلاسٹک کے فرنیچر کا 6 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اٹلی دنیا میں فرنیچر کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اس کے بعد جرمنی اور کینیڈا کا نمبر آتا ہے۔ امریکہ لکڑی کے فرنیچر کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اس کے بعد جرمنی اور فرانس کا نمبر آتا ہے۔ میاں کاشف نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان لکڑی کے فرنیچر کے شعبے میں دستکاری اور جدت طرازی کی شاندار تاریخ کا حامل ہے اس کا لکڑی کے فرنیچر کی بین الاقوامی مارکیٹ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لکڑی کے فرنیچر کی صنعت ملک کی کل فرنیچر مارکیٹ کا 95 فیصد ہے۔ پاکستان میں فرنیچر بنانے والے سب سے بڑے علاقے چنیوٹ، گجرات، پشاور، لاہور اور کراچی ہیں جبکہ برآمدات کے لحاظ سے کراچی پہلے نمبر پر جبکہ اس کے بعد لاہور اور پشاور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان کو متعدد مسائل کا سامنا ہے جبکہ فرنیچر کی بڑی مقدار میں درآمد کی وجہ سے مقامی مینوفیکچررز کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ چینی فرنیچر نے بھی مقامی صنعت کو 70 فیصد تک نقصان پہنچایا ہے اور مقامی طور پر تیار کیے جانے والے گھریلو فرنیچر کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھائی لینڈ اور کوریا نے بھی پاکستان کو بڑے پیمانے پر فرنیچر برآمد کرنا شروع کر دیا ہے اس سے ملکی صنعت پر دباو ¿ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لکڑی کے فرنیچر کی صنعت کو چھوٹی اور کاٹیج انڈسٹری میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ یونٹ لکڑی کے فرنیچر کی تیاری کے لیے فرسودہ مشینری، پرانے اوزار اور دستی مزدور استعمال کرتے ہیں جس سے لاگت زیادہ جبکہ پیداوار غیر معیاری ہوتی ہے۔ میاں کاشف نے کہا کہ چنیوٹ لکڑی کے خوبصورت نقش و نگار اور پیتل کے جڑا? والے فرنیچر کیلئے مشہور ہے اور یہاں کا فرنیچر ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کوالٹی میں بہتر ہے۔ ملک میں فرنیچر کی 80 فیصد سے زیادہ مانگ چنیوٹی فرنیچر اور جزوی طور پر چن ون سے پوری ہوتی ہے۔ ہینڈی کرافٹ اور فرنیچر انڈسٹری تقریباً پانچ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرات میں لکڑی کے فرنیچر کی صنعت بھی پھل پھول رہی ہے اور زرمبادلہ کمانے میں بڑا حصہ ڈال رہی ہے۔ پاکستانی فرنیچر کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور فرنیچر کی برآمدات کو سالانہ ایک بلین ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے.