اسلا م آباد (ویب ڈیسک)
اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) اور دیگر علمائے کرام نے سانحہ تلمبہ، سانحہ سیالکوٹ اور صوابی میں پیش آئے واقعات کو شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی پر توہین رسالت یا توہین مذہب کے الزامات لگا کر تشدد کرنا غیر شرعی ہے۔چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کونسل کے خصوصی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کسی پر توہین رسالت یا توہین مذہب کے الزامات لگا کر تشدد کرنا شریعت کے خلاف ہے، خانیوال، صوابی اور کہروڑ پکا کے سانحات حد درجہ تشویشناک ہیں، مذہب کی آڑ میں قانون کو ہاتھ میں لینا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سانحہ سیالکوٹ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، اسلام اس طرح کے پرتشدد واقعات کی مخالفت کرتا ہے۔انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد قرار واقعی سزا دی جائے۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ ‘پیغام پاکستان’ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا مستحن عمل ہے اور اسے صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص پر توہین مذہب، توہین قرآن یا توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے تشدد کا نشانہ بنانا غیر شرعی، غیر انسانی اور اسلامی اصولوں سے انحراف ہے۔کونسل کا کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم کی جانب سے الزام لگا کر کسی شخص پر بہیمانہ تشدد نہ عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی مذہب کی تعلیمات کے موافق ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ توہین رسالت کے حقیقی مجرموں کو بروقت سزا نہ دینا سانحہ تلمبہ یا سیالکوٹ کو جواز دیتا ہے، عدالتوں سے توہین رسالت کے حقیقی مجرمان کو سزا نہ ملنا تشدد کے رجحانات کا باعث ہے ،اسلامی نظریاتی کونسل نے مستقبل میں سانحہ سیالکوٹ جیسے افسوسناک واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت، ماہرین پر مشتمل کمیشن قائم کرے جو پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کرے، کمیشن میں نفسیات، معاشرت، قانون، مذہب اور معیشت کے ماہر افراد شامل ہوں جو معاشرے سے تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات تجویز کریں۔کونسل کا تجاویز دیتے ہوئے مزید کہنا ہے کہ احترام انسانیت سے متعلق آیات و احادیث کا ترجمہ مساجد و امام بارگاہوں اور تعلیمی اداروں میں آویزاں کیا جائے، میڈیا پر پروگرامز میں احترام انسانیت سے متعلق شرعی احکامات کے لیے اوقات مخصوص کیے جائیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کا نشاندہی کرتے ہوئے کہنا ہے کہ مختلف قومی اور بین الاقوامی عوامل اور محرکات کے باعث مشرقی خاندانی روایتی نظام شکست و ریخت کا شکار ہے، معاشرے کی اصلاح کے ساتھ اس روایتی مشرقی خاندانی نظام کو بحال کرنے کے لیے کاوشیں بھی ناگزیر ہیں۔