بروقت نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے سے آرمی چیف ہٹانے کی کوشش ناکام ہوئی ، بی بی سی کا دعویٰ ،آئی ایس پی آر کی تردید
اگر وزیراعظم کے حکم پر برطرفی کا یہ عمل مکمل ہو بھی جاتا تو بھی اسے کالعدم قرار دینے کا بھی بندوبست کیا جا چکا تھا،بی سی سی
جعلی کہانی میں کوئی حقیقت نہیں اورواضح طور پر منظم ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ لگتا ہے، معاملہ بی بی سی حکام کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے،آئی ایس پی آر
اسلام آباد (ویب نیوز) بی سی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہٹانے کی کوشش ناکام بنادی گئی، کوشش بروقت نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے سے ناکام ہوئی جبکہ آئی ایس پی آر نے تردید کردی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی اردو)کی شائع ہونے والی خبر سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہے، عام پروپیگنڈہ کہانی میں کوئی معتبر، مستند اور متعلقہ ذریعہ نہیں، یہ بنیادی صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے۔آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ جعلی کہانی میں کوئی حقیقت نہیں اورواضح طور پر منظم ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ لگتا ہے، یہ معاملہ بی بی سی حکام کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ہنگامے کے درمیان ہفتے کی شب وزیراعظم ہائوس میں غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آئی اور اس دوران کچھ تاریخی فیصلے اور واقعات رونما ہوئے، کچھ کیمروں کے سامنے اور بیشتر بند کمروں میں ، تمام دن گہما گہمی کا مرکز پارلیمنٹ ہائوس رہا جہاں کبھی تقاریر ہوتیں اور کبھی اجلاس ملتوی کر کے حکومتی اور اپوزیشن ارکان سپیکر قومی اسمبلی کے درمیان مذاکرات کیے جاتے رہے لیکن شام کے وقت جب قومی اسمبلی کا اجلاس روزہ افطار کرنے کے لیے ملتوی کیا گیا تو سرگرمی کا مرکز اچانک وزیراعظم ہائوس بن گیا۔وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنے قانونی و سیاسی مشیروں، سپیکر و ڈپٹی سپیکر اور بعض بیوروکریٹس کو بھی طلب کر لیا گیا۔کابینہ کے اجلاس میں اس مبینہ کیبل کو بعض عہدیداروں کو دکھانے کی منظوری دی گئی جس کے بارے میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس مراسلے میں ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکی سازش کی تفصیل درج ہے۔اس دوران قومی اسمبلی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی ایوانِ وزیراعظم پہنچے لیکن انہیں وزیراعظم کے دفتر کے برابر والے لائونج میں انتظار کرنے کا کہا گیا۔اس دوران دو بن بلائے مہمان بھی بذریعہ ہیلی کاپٹر، غیر معمولی سکیورٹی اور چاق و چوبند جوانوں کے حصار میں وزیراعظم ہائوس پہنچے اور وزیراعظم سے تقریبا ًپونا گھنٹہ تنہائی میں ملاقات کی۔اس ملاقات میں کیا بات ہوئی ظاہر ہے، اس بارے میں کوئی اطلاعات دستیاب نہیں تاہم باوثوق اور معتبر سرکاری ذرائع نے جنہیں اس ملاقات کے بارے میں بعد میں معلومات فراہم کی گئیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ملاقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی۔ملاقات میں موجود ایک اعلیٰ عہدیدار کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ایک گھنٹہ قبل ہی ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس لیے وزیراعظم کے لیے ان مہمانوں کی یوں بن بلائے اچانک آمد غیر متوقع تھی۔ عمران خان ہیلی کاپٹرز کے منتظر تو تھے لیکن اس ہیلی کاپٹر کے مسافروں کے بارے میں ان کا اندازہ اور توقعات بالکل غلط ثابت ہوئیں۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم توقع کر رہے تھے کہ اس ہیلی کاپٹر میں ان کے نو مقرر کردہ عہدیدار وزیراعظم ہائوس پہنچیں گے اور اس کے بعد وہ شور و غوغا مدھم پڑ جائے گا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ ہائوس سے شروع ہوا تھا۔شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس اعلی ترین برطرفی اور ایک نئی تعیناتی کے لیے جو قانونی دستاویز (نوٹیفکیشن) وزارت دفاع سے جاری ہونی چاہیے تھی وہ جاری نہ ہو سکی یوں اس انقلابی تبدیلی کی وزیراعظم ہائوس کی کوشش ناکام ہو گئی۔ ویسے اگر وزیراعظم کے حکم پر برطرفی کا یہ عمل مکمل ہو بھی جاتا تو بھی اسے کالعدم قرار دینے کا بھی بندوبست کیا جا چکا تھا۔سنیچر کی رات اسلام آباد کی ہائیکورٹ کے تالے کھولے گئے اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کا عملہ ہائیکورٹ پہنچا۔بتایا گیا کہ ہائیکورٹ ہنگامی طور پر ایک پٹیشن سماعت کے لیے مقرر کی جانے والی ہے جس میں ایک عام شہری کی حیثیت سے عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے ممکنہ نوٹیفکیشن کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔اس فوری درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بری فوج کے سربراہ کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے لہذا عدالت اس حکم کو بہترین عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ درخواست تیار تو کر لی گئی لیکن اس میں بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے نوٹیفکیشن نمبر کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ وزیراعظم کی خواہش کے باوجود یہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا اور یوں اس پیٹشن پر سماعت کی نوبت ہی نہیں آئی۔