ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ فیصلہ کرتے ہیں،چیف جسٹس عمرعطابندیال
دعا ہوتی ہے کہ فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو،عدالت کا کام تمام آئینی سوالات کا جواب دینا ہے
جاننا چاہیں گے آرٹیکل 63 اے پر رائے کس حد تک دے سکتے ہیں؟کیا عدالت سوال سے ہٹ کر تشریح کر سکتی ہے
ملک کو میچور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا،میچور جمہوریت کے لئے ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران فاضل ججزکے ریمارکس،سماعت عید کے بعد تک ملتوی
اسلام آباد (ویب نیوز) آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو۔عدالت کا کام تمام آئینی سوالات کا جواب دینا ہے جاننا چاہیں گے آرٹیکل 63اے پر رائے کس حد تک دے سکتے ہیں۔کیا عدالت پراس سوال کی قید ہے یا اس سے ہٹ کر تشریح کر سکتی ہے۔ ملک کو میچور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا۔میچور جمہورہت کے لئے ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کا آغاز کیا تو پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفروڈیو لنک کے ذریعے دلائل آئے تو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ علی ظفر صاحب اگر آپ نے دس منٹ میں دلائل مکمل نہ کئے تو پھر مخدوم علی خان کو سنیں گے۔ علی ظفر نے کہاکہ وہ دس منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے ۔ علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل میں موقف اپنایا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا تریسٹھ اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے اور تریسٹھ اے کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ووٹ کاسٹ تو ضرور ہو گا لیکن اس کو گنا نہیں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے کردار اور اہمیت پر عدالتی فیصلے موجود ہیں، آزاد اور سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز ممبر اسمبلی بنتے ہیں ، آرٹیکل63اے سیاسی جماعتوں کے ممبر سے متعلق ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیاکہ کیاآپ یہ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے؟ علی ظفر نے جواب دیا میں عدالتی تشریح کے ذریعے یہ استدعا کر رہا ہوں۔ جسٹس جمال خان نے سوال کیاکہ انحراف کا فیصلہ پارٹی سربراہ نے کرنا ہے، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں؟ ، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہی کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا۔پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکہ کیا ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا۔ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا۔ ووٹ نہ ڈالنے کی کوئی قدغن لگائی نہیں گئی لیکن آرٹیکل تریسٹھ اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔ اگر ممبر رکن اسمبلی نے فیصلہ کرنا ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنا ہے یا نہیں۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا۔ پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی سپیکر کوبتاسکتا ہے، جسٹس جمال خان نے کہاکہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پہلے شوکاز نوٹس دے کر اس کا جواب لے گا۔ نوٹس کے بعد ملنے والے جواب سے پارٹی سربراہ مطمئن ہو کر شوکاز ختم بھی کر سکتا ہے۔چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیاکہ کیا آپ کہہ رہے ہیں پارلیمانی پارٹی کی ہدایت اکثریت کی ہدایت ہوتی ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے تو لاش ملنے کے بعد ہی کاروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے پھر علی ظفر سے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گئے آرٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔علی ظفر نے کہاکہ قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے منحرف رکن کے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ رضا ربانی اور فاروق نائیک کا کہنا ہے پارٹی سربراہان کے بے پناہ اختیارات کو روکنے کے لیے سزا واضح نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ فیصلہ سربراہ کرتا ہے یا پارلیمانی پارٹی کرتی ہے؟ پارلیمانی پارٹی میں فیصلہ سازی کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ سیاسی پارلیمانی جماعت کا آئین ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اکثریت فیصلہ کرتی ہے۔جسٹس جمال خان نے سوال کیاکہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی۔ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں۔ آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے۔ صرف ایک سیاسی جماعت منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ہے۔اس پر علی ظفرنے کہاکہ آئین کی تشریح کا حق عدالت کے پاس ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ عدالت تشریح سے آگے نہیں جانا چاہتی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بڑا واضح ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے اورآئین کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے۔ آئین میں تریسٹھ اے شامل کرنے کا مقصد انحراف کے کینسر کو ختم کرنا تھا،اس دوران عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ وہ اپنی تحریری معروضات جمع کروادیں ، اس دوران پاکستان مسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق نے علی ظفرایڈووکیٹ کے دلائل اپنا تے ہوئے موقف اپنایاکہ آئین کاآرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے،انہوں نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا، عملی طور پر جو کچھ کیا گیا وہ میثاق جمہوریت کیخلاف ہے، مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل شروع کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وہ آج ایک گھنٹے میں دلائل مکمل نہیں کر سکیں گے، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگلے دو ہفتے بینچ دستیاب نہیں ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ آپ آرٹیکل تریسٹھ اے پر جلد از جلد اپنی رائے دیں،مخدوم علی خان نے کہاکہ14 مئی کو بیرون ملک سے میری واپسی ہوگی، چیف جسٹس نے کہاکہ اپنے دلائل کا خلاصہ بیان کر دیں پھر دیکھیں گے، مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، منحرف رکن اسمبلی کی مدت تک ہی نااہل ہو سکتا ہے، ان کا کہنا تھاکہ آئین کی تشریح کا عدالتی اختیار ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ ماضی میں پارلیمنٹ عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن عدالت نے کبھی اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ن لیگ کے وکیل نے کہاکہ عمران خان نے آرٹیکل تریسٹھ اے کے حوالے سے ائینی درخواست بھی دائر کی ہے، اس آئینی درخواست میں کوئی سیاسی جماعت یا منحرف رکن فریق نہیں۔ آئینی درخواست میں صرف منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی مانگی گئی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ صدارتی ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی عمران خان کی درخواست میں بھی اٹھایا گیا ہے۔مخدوم علی خان نے کہاکہ ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔آئینی درخواست میں ووٹ شمار نہ کرنے کی استدعا نہیں کی گئی۔ ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔ وکیل ن لیگ کا کہنا تھا عدالت نے اسمبلی بحال کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو۔مخدوم علی خان نے کہاکہ فیصلہ خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو بغیر مزاحمت کے عمل ہونا چاہیے۔عدالت کے سامنے اب کوئی مواد نہیں کہ اراکین کیوں منحرف ہوئے۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ رشوت لینے کے شواہد ہیں نہ ہی یہ معلوم کہ ضمیر کی آواز پر منحرف ہوئے، رکن کیوں منحرف ہوا یہ شواہد دینا اسکا کام نہیں۔ وکیل مسلم لیگ ن نے کہاکہ بعض آئینی ترامیم پر وکلا اور عوام نے احتجاج کیا۔ ساتویں ترمیم میں سول اداروں کی مدد کے لیے فوج طلب کرنے کی منظوری ہوئی۔ سول اداروں کی مدد کے لیے آئی فوج کے اقدامات کو عدالتی دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا۔چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا عدالت صرف سوال کی حد تک آئین کی تشریح کر سکتی ہے۔،مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت سے رائے مانگی گئی ہے۔ عدالت اپنا اختیار 184/3میں استعمال کر سکتی ہے۔ آرٹیکل تریسٹھ اے پارٹی سے بے وفائی روکنے کے لیے نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کا کام تمام آئینی سوالات کا جواب دینا ہے جاننا چاہیں گے آرٹیکل 63 اے پر رائے کس حد تک دے سکتے ہیں۔کیا عدالت پراس سوال کی قید ہے یا اس سے ہٹ کر تشریح کر سکتی ہے۔ ملک کو میچور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا۔میچور جمہورہت کے لئے ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ن لیگ کے وکیل کا کہنا تھاکہ پارٹی سے وفا داری ریاست سے وفاداری سے ہٹ کرہوتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ عزت کا راستہ یہ ہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔عدالتی وقت ختم ہونے پرکیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی گئی۔
#/S