آئندہ عام انتخابات کے اعلان کے لیے کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں، یہ فیصلہ پارلیمنٹ کرے گا،شہباز شریف
حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی
بلین ٹری کے جھوٹے نعرے لگانے والوں نے درختوں کو جڑوں سے کاٹا اور آگ لگائی
بات چیت کے دروازے کھلے ہیں، کمیٹی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے
یٰسین ملک عظیم ماں کا عظیم بیٹا ہے،بھارتی جارحیت کی یہ ایوان مذمت کرتا ہے
جب تک ہمارے جسموں میں سانس ہے کشمیریوں کی حق خودارادیت کے لیے کھڑے ہوں گے
آج پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے مگر اس کو بہتر بنانے، عظیم ملک بنانے کے لیے ہم اپنا خون پسینہ بہانے کے لیے تیار ہیں
وزیر اعظم کاکو قومی اسمبلی میں اظہار خیال
اسلام آباد( ویب نیوز)وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت آئندہ عام انتخابات کے اعلان کے لیے کسی کی ڈکٹیشن یا بلیک میلنگ قبول نہیں کرے گی۔آئندہ انتخابات کے اعلان کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی،جمعرات کو قوم اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم دو مقاصد کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں، جن میں شفاف اور قابل اعتماد انتخابات کو یقینی بنانا اور معیشت کی بہتری شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے معیشت کو مضبوط کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ایوان کو اب فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم محنت سے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالیں یا مسلح گروہوں کو یرغمال بنانے دیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے سوائے گالی گلوچ اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کے کچھ نہیں کیا،وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے جتھے کے سربراہ عمران خان کی ڈکٹیشن نہیں چلے گی اور انتخابات کب کرانے ہیں اس کا فیصلہ ایوان کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری عوام نے فیصلہ کرنا ہے کیا ہمیں فتنے کا راستہ روکنا ہے یا اس کی اجازت دے کر ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی تحریک انصاف کے مارچ میں ایک حاضر سروس افسر پر تشدد کیا گیا تھا اور آج پھر خونی مارچ کیا گیا۔شہباز شریف نے کہا کہ مہذب معاشروں میں خونی مارچ کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں مگر اس کے برعکس ہم نے بہت احتیاط کی کہ کسی کی جان نہ جائے، مگر جتھے کے سربراہ نے پورے ملک کو نقصان پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ کبھی دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی صوبہ وفاق پر حملہ کرے، صوبے کی حکومت کے سربراہ کے ساتھ وفاق پر حملہ کیا گیا۔اسلام آباد میں لانگ مارچ کے دوران جلائے گئے درختوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بلین ٹری کے جھوٹے نعرے لگانے والوں نے درختوں کو جڑوں سے کاٹا اور آگ لگائی۔ان کا کہنا تھا کہ آج پارلیمنٹ کو جواب دینا ہے کہ کیا ہمیں تخریب کی طرف جانا ہے یا تعمیر کی طرف، پاکستان کو بنانا ہے بگاڑنا ہے، کیا ہمیں تباہی کا راستہ اختیار کرنا ہے یا پاکستان کو بنانے کا۔انہوں نے کہا کہ میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے غیر آئینی جتھوں کو روکنے کے لیے اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کیے۔لاہور میں پولیس کارروائیوں کے دوران شہید سپاہی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ شہید سپاہی کے لیے ایوان دعاگو ہے، شہید سپاہی کے بچوں کو کون تسلی دے گا کہ ان کا باپ کب واپس آئے گا۔انہوں نے لاہور میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار اور زخمی اہلکاروں کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے پیکج دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کا حوصلہ بڑھے گا کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں پاکستانیوں، افواج پاکستان، پولیس، چاروں صوبوں اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دی ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ آج پشاور میں جہاد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں لیکن یہ بتایا جائے کہ یہ جہاد کس کے خلاف کیا جا رہا تھا، خیبرپختونخوا میں مذہب کو ذاتی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا جس کی یہ ایوان مذمت کرتا ہے۔ایندھن پر دی گئی سبسڈی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایندھن کے موجود نہ ہونے کے باجود اور قیمت میں اضافہ ہونے کے باوجود بھی عمران خان نے اس پر سبسڈی دی تاکہ ہمیں مشکلات کا سامنا ہو اور وہ پھر عوام کو اکسائے کہ میری حکومت میں پیٹرول سستا دیا جارہا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہسپتالوں میں ادویات مفت ملتی تھیں وہ سابق وزیر اعظم نے بند کردیں، ہیپاٹائٹس کا مفت علاج بند کیا گیا، عوام کی زندگی تباہ کی گئی، یہ انسان پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ساتھی نہیں ہے۔کشمیری حریت رہنما یٰسین ملک کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ عقل کا اندھا بھی جانتا تھا کی یٰسین ملک کی قسمت کا فیصلہ بھارت کرنے جارہا ہے مگر اس انسان نے کشمیریوں کا خیال بھی نہیں کیا، کشمیریوں کا اتنا احترام تھا تو اس دن کے بجائے کسی اور دن کا انتخاب کیا جاتا مگر عمران خان کو کشمیریوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ وہ شخص، نعیم الحق، جو ان کی پارٹی کے بانی رکن تھے ان کا کراچی میں انتقال ہوگیا لیکن عمران خان نے ان کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی، جس شخص کا یہ عالم ہو اس کو کشمیریوں کی کیا پرواہ۔ان کا کہنا تھا کہ کل یٰسین ملک کے حوالے سے پوری دنیا میں آواز اٹھ رہی تھے مگر اس شخص نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی، یٰسین ملک عظیم ماں کا عظیم بیٹا ہے، بھارتی جارحیت کی یہ ایوان مذمت کرتا ہے، جب تک ہمارے جسموں میں سانس ہے کشمیریوں کی حق خودارادیت کے لیے کھڑے ہوں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ اس وقت ملک کو خطرات کا سامنا ہے مگر میں جتھے کے سربراہ کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تمہاری ڈکٹیشن نہیں چلے گی، ایوان ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا انتخابات کب ہونے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں اور اس کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے مگر یہ یاد رہے کہ ڈکٹیشن گھر میں دو ایوان کو نہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ اگر عمران خان کے حق میں عدالتی فیصلے آئیں تو سب اچھا اور اگر کوئی فیصلہ ان کے خلاف آئے تو اداروں کو گالیاں دی جاتی ہیں، عدالت عظمٰی کو گالیاں دی جاتی ہیں اور پاکستان کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ قوم دکھی قوم ہے کب تک یہ ڈرامہ کیا جائے گا، کب تک ترقی کے راستوں کو روکا جائے گا، کوئی زمانہ تھا جب پاکستان کئی حوالوں سے بھارت سے آگے تھا، 90 کی دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر بھارتی روپے سے زیادہ تھی۔انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں پاکستان کی معیشت کو آزاد کیا گیا اور بھارت نے ہماری نقل کی، اب معیشت کی بہتری کے لیے ہماری ٹیم دن رات محنت کر رہی ہے، آج بھارت کی آئی ٹی کی برآمد 200 ارب ڈالر ہیں جبکہ پاکستانی آئی ٹی برآمد صرف ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ آج پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے مگر اس کو بہتر بنانے، عظیم ملک بنانے کے لیے ہم اپنا خون پسینہ بہانے کے لیے تیار ہیں