پیڑول اور ڈیزل کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو معیشت ڈوب جاتی، سالانہ 2500 ارب روپے کی سبسڈی برداشت نہیں کر سکتے،شاہد خاقان عباسی ،مصدق ملک

ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کیے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کا ذمہ دار عمران خان  ہے

تیل کوقیمت خرید سے کم پر فروخت کرنا ممکن نہیں،  عالمی منڈی میں اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہمیں بھی بڑھانا پڑیں گی

اگر روس سے  30 فیصد سستا تیل مل رہا تھا تو پی ایس او کے ٹینڈر میں کیوں نہ آتا؟

وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی پریس کانفرنس

اسلام آباد  (ویب نیوز)

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کو بربادی اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کیے ہیں،پیڑول اور ڈیزل کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو معیشت ڈوب جاتی جبکہ وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک نے پٹرولیم مصنوعات کی حالیہ قیمتوں میں اضافہ کا ذمہ دار عمران حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ عمران خان نے کیا تھا،عمران خان کی سبسڈی کی قیمت آج عوام مہنگے پیڑول کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات بتائیں۔ مصدق ملک کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اورمسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے یہ فیصلہ کیا کہ عوام کو ریلیف دینے بغیر پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا، ہم نے تین بار اس حوالے سے لائحہ عمل بنا کر دیا، جسے وزیراعظم نے قبول نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان ملک کو دیوالیہ ہونے کی طرف لیکر گئے،وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ نہیں کھیل سکتے توکھیل ہی ختم کر دیں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ لیوی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا معاہدہ عمران خان نے کیا تھا،جو آج بھی آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر موجود ہے، عمران خان کی سبسڈی کی قیمت آج عوام مہنگے پیڑول کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ مصدق ملک نے بتایا کہ ملک کو دیوالیہ ہونے اور بربادی سے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کیے گئے ہیں،ہم نے لیوی اور سیلز ٹیکس نہیں بڑھایا،بوجھ حکومت خود بھی اٹھا رہی ہے،اور باقی بوجھ تقسیم کیا جا رہا ہے،مسلم لیگ ن وہ جماعت ہے جس نے ملک کو 11 سے12 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار دی اور ایل این جی کے تین ٹرمینلز اپنے دور میں لگائے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران حکومت کے ختم ہونے سے کچھ دن قبل اس وقت کے  وزیرتوانائی نے ایک خط تحریرکیا تھا جس میں روس سے تجارت کے فروغ اور پڑولیم مصنوعات میں تجارت کی درخواست کی گئی تھی،لیکن اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان نہ کوئی معاہدہ ہے اور نہ ہی کسی مفاہمت کی یاد دادشت پر دستخط ہوئے ہیں،مصدق ملک نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر 30 فیصد سستا تیل مل رہا تھا تو پی ایس او کے ٹینڈر میں کیوں نہ آتا،نہ تو اس وقت کے وزیر توانائی کے خط کا کوئی جواب روس سے آیا اورہمارے سفیر نے جب روس کے  وزیر توانائی سے ملاقات کی تو انھوں نے بھی اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔وزیر مملکت نے آئندہ چند ماہ میں صورتحال بہتر ہونے کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ معاشی استحکام بحال ہونے میں کچھ مہینے لگیں گے،عمران خان بارودی سرنگیں بچھا کر گئے ہیں،ایل این جی اور تیل وقت پر نہیںخریدا گیا،بیرونی ممالک کیساتھ تعلقات خراب کر کے رخصت ہو گئے۔اس موقع پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج نہ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی ہے اور نہ سیلز ٹیکس ہے، قیمت خرید بھی پوری وصول نہیں کی جا رہی، قیمتیں نہ بڑھاتے تو معیشت ڈوب جاتی، مشکل فیصلے نہ کرنا اس وقت ملک اور عوام سے نا انصافی ہوگی،موجودہ حکومت کے اقدامات سے روپیہ مستحکم ہوگا اور معیشت ترقی کرے گی، دنیا کا کوئی ملک ایسا ملک نہیں جو مہنگا پیڑول خرید کر سستا فروخت کرے،قرضے لیکر قیمتیں کم رکھی جائیں تو ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑتے ہیں، حکومت پٹرولیم مصنوعات پر ماہانہ رعایت دے رہی ہے، دنیا میں تیل کی قیمتیں تاریخی سطح پر ہیں، اس لیے سالانہ 2500 ارب روپے کی سبسڈی برداشت نہیں کر سکتے۔ تیل کوقیمت خرید سے کم پر فروخت کرنا ممکن نہیں،ماضی میں پیڑولیم مصنوعات پر ٹیکس تھا،آج حکومت کو پٹرولیم مصنوعات سے کوئی آمدنی حاصل نہیں ہوتی، عالمی منڈی میں اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہمیں بھی بڑھانا پڑیں گی۔ ہفتہ کی تعطیل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ہفتے میں زیادہ کام کیلئے چھ دن کام کا فیصلہ کیا تھا، وہ اس پر اب نظر ثانی کرتے ہیں تو دیکھیں کہ اس کا کیانتیجہ نکلتا ہے کیونکہ ایک طرف کام  ہے تو دوسری طرف اخراجات میں کچھ کمی آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے  دفاعی اخراجات 1700 ارب ر وپے ہیں جبکہ پوری حکومت 520 ارب روپے سے چلتی ہے،اس میں سے 30  سے 40  ارب روپے پیڑول کی مد میں خرچ ہوتے ہوں گے،انہیں کم کرنے کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔