آج پاکستان کے دارلحکومت میں جمہوریت نہیں آمریت ہے، ہم اور قومی اسمبلی، سینیٹ کے ممبران ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، شاہد خاقان عباسی

نام نہاد جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے کالے قوانین بنائے جا رہے ہیں. جو مارشل لا کے بدترین دور میں بھی نہیں تھے

ملک میں نیا کالا قانون بنا کر پوری اسمبلی کو ایک ایس ایچ او کے تابع کردیا گیا،سابق وزیر اعظم کی پریس کانفرنس

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیئرمین عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے میں جو الفاظ وزیراعلی خیبر پختونخوا نے استعمال کیے وہ کسی کو زیب نہیں دیتے، ان کی مذمت نہ ہو تو جمہوریت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ ملک کی بدقسمتی ہے کہ آج ایک نام نہاد جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے کالے قوانین بنائے جا رہے ہیں جو مارشل لا کے بدترین دور میں بھی نہیں تھے۔ملک میں نیا کالا قانون بنا کر پوری اسمبلی کو ایک ایس ایچ او کے تابع کردیا گیا،اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسلام آباد جلسے جلوسوں کے لیے نیا ایکٹ پاس کیا گیا ہے جس کے اختیارات انتظامیہ اور مجسٹریٹ اور پھر وزیر داخلہ کو دیے گئے ہیں، ملک میں اس قانون کی ضرورت نہیں تھی، ملک میں پہلے ہی ایسے قوانین موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ عوامی اجتماع روکنے کے لیے پہلے ہی کئی قوانین موجود ہیں،ایک جلسے کی وجہ سے پورے اسلام آباد کو بند کردیا گیا اور کالے قوانین بنائے گئے۔ ہماری بد نصیبی ہے کہ آج نہ جمہوریت، نہ عوام اور نہ ملک کی مشکلات کی بات کی جا رہی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی نفی میں قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ ایک جلسے کے لیے حکومت اپوزیشن سے خائف ہو کر اندھے اور کالے قانون بنا رہی ہے، آپ نے اسلام آباد میں عوام کے فری اسمبلی کے آئینی حق کو ختم کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کے دارلحکومت میں جمہوریت نہیں آمریت ہے، ہم اور قومی اسمبلی، سینیٹ کے ممبران ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، تمام سیاسی جماعتیں مل کر اپنے حق کو اس قانون کے تابع کررہی ہیں، اپنے آپ کو ایک ایس ایچ او اور ایک ڈپٹی کمشنر کے تابع کررہی ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 8 ستمبر کو ایک سیاسی جماعت کو جلسہ کی اجازت ملی،اس جلسہ سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی آج کی سیاسی روایات کی عکاسی کرتا ہے۔چیئرمین عوام پاکستان پارٹی نے کہا کہ جلسہ اسلام آباد سے باہر تھا، حکومت نے آدھا اسلام آباد بند کردیا، جلسہ والے دن انٹرنیٹ سست کردیا، ہر سڑک پر کنٹینر لگے ہوئے تھے، یہ کون سی جمہوریت ہے کہ حکومت خود محصور ہو کر رہ گئی۔ان کا کہنا تھا کہ جلسہ کے دوران جو تقاریر ہوئی اس میں عوام کی بات کسی نے بھی نہیں کی، پورے جلسے کے دوران صرف ایک دوسرے پر الزامات اور گالم گلوچ کی گئی، جو الفاظ وزیراعلی خیبر پختونخوا نے استعمال کیے وہ کسی کو زیب نہیں دیتے، ان کی مذمت نہ ہو تو جمہوریت کا حق ادا نہیں ہوتا۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جب آپ ایک ایک ذمہ دار آئینی عہدے پر ہوں تو جو بھی لفظ آپ بولتے ہیں تو وہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،لوگ دیکھتے ہیں اور یہ آپ کی جماعت کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس کے بعد ممبران اسمبلی کی جو اور جس طرح گرفتاریاں کی گئیں وہ درست نہیں ہے، اسپیکر کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے، دیکھنا چاہتا ہوں کہ اسپیکر گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈ ر پرکیسے عمل کراتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک قانون کی تشریح کی ہے، قانون نہیں بنایا،  چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت میں توسیع سے انکار کر کے تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔