اپنی نیک نیتی دکھانے کیلئے الاٹ شدہ مقام پر سڑک کی تعمیر شروع کریں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
پارک ویو نے غیر قانونی کام اور سی ڈی اے نے مجرمانہ غفلت دکھائی، عدالت مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں پھنس گئی ،ریمارکس
نسلہ ٹاور کا بھی مسئلہ سڑک کا ہی تھا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے تو قرار دیا کہ سب کچھ مسمار کر دو ،جسٹس محمد علی مظہر
ہائیکورٹ نے سوموٹو کا اختیار کیسے استعمال کر لیا،ریمارکس، کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی
اسلام آباد (ویب نیوز)
پارک ویو سوسائٹی کی این او سی منسوخی کیخلاف اپیلوں پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی،عدالت نے اسلام آباد انتظامیہ کو سڑک کی تعمیر کیلئے حد بندی کی ہدایت کر دی ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اثاثے بنانا معیشت کیلئے بہت اچھی چیز ہے، اثاثے غلط بنے ہوں تو قصور بنانے والے کا ہوتا ہے۔ جمعرات کے روز پارک ویو سوسائٹی کی این او سی منسوخی کیخلاف اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ عدالت نے اسلام آباد انتظامیہ کو سڑک کی تعمیر کیلئے حد بندی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پارک ویو سوسائٹی اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے سے ملکر راستہ ریگولر کرائے، سی ڈی اے چاہے تو پارک ویو پر قانون کے مطابق جرمانہ کر سکتا ہے، سی ڈی اے کو متاثرین کو ادائیگیاں یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ تعین کرے پارک ویو نے کسی کی زمین پر قبضہ کیا ہے یا نہیں۔ سوسائٹی کے وکیل نے بتایا کہ ئیکورٹ احکامات کی وجہ سے بجلی اور گیس کے میٹر نہیں لگ رہے، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنی نیک نیتی دکھانے کیلئے الاٹ شدہ مقام پر سڑک کی تعمیر شروع کریں، الاٹ شدہ زمین کا جو حصہ متنازع نہیں وہاں سڑک بنانی شروع کریں، وکیل نے موقف اپنایا کہ سی ڈی اے متاثرین کیساتھ مسئلہ حل کرے تو فوری تعمیر شروع ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متاثرین کا مسئلہ حل کرنے میں پارک ویو سے زیادہ جلدی کسی کو نہیں ہو سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم درست نہیں، سی ڈی اے بھی سویا ہوا ہے، پارک ویو نے غیر قانونی کام اور سی ڈی اے نے مجرمانہ غفلت دکھائی، عدالت مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں پھنس گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اثاثے بنانا معیشت کیلئے بہت ابھی چیز ہے، مگر اثاثے غلط بنے ہوں تو قصور بنانے والے کا ہوتا ہے، جو گھر بن چکے ہیں، انہیں گرانا مسئلے کا حل نہیں ہے، جو تعمیرات ریگولر ہو سکتی ہیں انہیں کرنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نسلہ ٹاور کا بھی مسئلہ سڑک کا ہی تھا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے تو قرار دیا کہ سب کچھ مسمار کر دو ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوموٹو کا اختیار کیسے استعمال کر لیا، ہائیکورٹ کے حکم پر مقدمہ بھی درج نہیں ہوا، مقدمہ درج ہو جاتا تو حقائق سامنے آ جاتے۔وکیل متاثرین نے موقف اپنایا کہ نیشنل پارک کی زمین کسی سوسائٹی کو الاٹ نہیں ہو سکتی، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانونی حل نکل رہا ہو تو اس پر فوکس کرنا چاہیے، پارک ویو نے سڑک بنا کر سی ڈی اے کا بھلا کیا، بے قاعدگیاں ہوتی رہتی ہیں، کیس کہیں سے شروع ہوتا ہے پہنچ کہیں اور جاتا ہے، جس زمین کا مسئلہ ہے اسے ریگولر کریں اور انہیں جرمانہ ٹھوکیں، متاثرین کا اگر کوئی بند راستہ ہے تو انتظامیہ سے رجوع کریں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی۔