چین پاکستان کا ایک دوست ملک ہے، نہیں ۔ پاکستانی لوگوں کو جو مسائل سب سے زیادہ تنگ کرتے ہیں، ان میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر ہے اور پھر فلسطین کا
میری حکومت کو ہٹانے میں امریکی کردار اہم تھا۔ پاکستان کو ایک مضبوط آرمی کی ضرورت ہے
افغانستان کو اگر تنہا کیا گیا تو خطرات بڑھ سکتے ہیں ،سابق وزیراعظم کا انٹرویو
اسلام آباد (ویب نیوز)
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہے پاکستان کو روس کی ضرورت ہے، اس لیے انہوں نے بطور وزیر اعظم روس کی طرف سے یوکرین جنگ شروع کرنے پر ماسکو حکومت کی مذمت نہیں کی تھی۔جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کئی اہم امور پر گفتگو کی، جس میں یوکرین جنگ کے علاوہ پاکستانی خارجہ پالیسی کے کئی اہم معاملات بھی زیر بحث آئے۔ڈوئچے ویلے کے چیف انٹرنیشنل ایڈیٹر رچرڈ واکر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہتر سالہ عمران خان نے کہا کہ بنیادی طور پر وہ جنگ مخالف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے عسکری کارروائی صورتحال کو صرف بگاڑتی ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر موقع پر انہوں نے جنگ کی مخالفت کی ہے۔ ۔عمران خان نے روسی جارحیت کی مذمت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں علم ہوتا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ ماسکو جاتے ہی نہ۔یاد رہے کہ جب چوبیس فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو تب وزرات عظمی کے منصب پر فائز عمران خان ایک سرکاری دورے پر ماسکو میں ہی تھے۔عمران خان نے یوکرین جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو یقینی طور پر میں یہ مشورہ دیتا کہ یہ جنگ شروع نہیں کی جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے تو انہوں نے عراق اور افغان جنگ کی کھلی عام مخالفت اس لیے کہ تھی کہ وہ پاکستانی حکومت کا موقف نہیں تھا لیکن جب یوکرین جنگ شروع ہوئی تو وہ وزیر اعظم بن چکے تھے اور ان کی اولین ترجیح پاکستان کی دو سو بیس ملین کی آبادی کی نمائندگی کرنا بن چکی تھی۔عمران خان نے واضح انداز میں کہا کہ جب کوئی کسی کی مذمت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی کی طرف داری بھی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معاملات پر اخلاقی طور پر کوئی موقف اختیار کرنا بہت اچھا ہے لیکن جب آپ کے موقف کی وجہ سے پورا ملک متاثر ہونے کا خدشہ ہو تو نیوٹرل رہنا ہی بہتر ہے۔عمران خان نے مزید کہا کہ اگر کوئی ملک امیر اور مضبوط ہے تو اسے کسی کی طرف داری کرنے پر شائد کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن بطور پاکستانی وزیر اعظم ان کی اولین ترجیح یہی تھی کہ وہ اپنے عوام کی نمائندگی کریں اور ان مسائل پر توجہ مرکوز کریں، جو حقیقی طور پر عوامی ہیں۔ انہوں نے یوکرین جنگ کو یورپ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مسائل مختلف ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین نے کہا کہ پاکستان کہ سو ملین شہری ابتر صورتحال سے دوچار ہیں، وہ یا تو غربت کی لکیر سے نیچے ہیں یا صرف کچھ اوپر ہیں اور جب وہ وزیر اعظم تھے تو یہی عوام ان کی ذمہ داری تھے۔چین کی حکومت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے دہرایا کہ ان کی ذمہ داری ان کے ملک کے عوام ہیں اور وہ دنیا میں ہونے والے غلط کاموں کو سدھارنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سنکیانگ میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ مبینہ ابتر سلوک یا چین میں انسانی حقوق کی مخدوش صورتحال پر رائے دینے یا اس حالات کی مذمت کرنے کے بجائے عمران خان نے چین کو پاکستان کا ایک دوست ملک قرار دیا اور کہا کہ انہیں صرف پاکستان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔رچرڈ واکر نے عمران خان سے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر وہ بغیر کسی احتساب کے چین، روس یا کسی اور ملک کی طرف یوں آنکھ موند کر یقین کر لیں گے تو اس سے پاکستان کا ان ممالک پر انحصار بڑھ نہیں جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ چین نے پاکستان میں جتنی بھی سرمایہ کاری کی ہے، اس کے بدلے میں بیجنگ نے پاکستان پر کچھ تھوپنے کی کوشش نہیں کہ اور نہ اسلام آباد پر اپنے نظریات کا پرچار کرنے کے لیے زور ڈالا۔اس بات پر رچرڈ واکر نے عمران خان کو ٹوک کر پوچھا کہ پاکستان غالبا غیر محسوس طریقے سے چین کے دبا ومیں ہے، جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ سنکیانگ ریجن میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ ڈھائے جانے والی چینی مظالم پر اسلام آباد حکومت نے کھلے عام ایک بیان بھی نہیں دیا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے یہ کہا کہ پاکستانی لوگوں کو جو مسائل سب سے زیادہ تنگ کرتے ہیں، ان میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر ہے اور پھر فلسطین کا۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ چین کو کھلے عام اس لیے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا کیونکہ اس سے باہمی تعلقات کے خراب ہونے کے امکانات ہیں۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت کو ہٹانے میں امریکی کردار اہم تھا۔ انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے تھے لیکن جو بائیڈن کے آنے کے بعد ان میں تنزلی آئی۔تاہم اس بارے میں انہوں نے کوئی زیادہ وضاحت نہ کی۔عمران خان نے اپنی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں حکومت ملی تھی تو اقتصادیات کا برا حال تھا اور ملکی خزانہ خالی تھا جبکہ کووڈ کی عالمی وبا نے بھی ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ملکی فوج کے سربراہ کو تنقید کا نشانہ نہ بنانے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اپنی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں بلکہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو ایک مضبوط آرمی کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کا جغرافیائی و سیاسی محل وقوع اس بات کا متقاضی ہے، اس تناظر میں انہوں نے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیکھ لیں کہ ان ممالک میں کیا ہوا ہے۔اس بات پر رچرڈ واکر نے سوال کیا کہ آیا مضبوط اور طاقتور فوج کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں بھی دخل دے تو عمران خان نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہ دراصل پاکستان ایک ‘سکیورٹی اسٹیٹ بن چکا ہے کیونکہ بھارت کا خطرہ شروع سے ہی منڈلاتا رہا ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ صورتحال بہتر ہو رہی اور ملک میں اسی وقت جمہوریت اور سیاسی عمل مضبوط ہو گا، جب آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کرائے جائیں گے۔افغانستان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ افغان طالبان نے انہیں ذاتی طور پر بتایا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے حق میں ہیں اور افغانستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔عمران خان نے مزید کہا کہ افغانستان کو اگر تنہا کیا گیا تو خطرات بڑھ سکتے ہیں اور پاکستانی اس بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔عمران خان کے بقول اگر افغانستان کو مرکزی دھارے میں شامل نہ کیا گیا تو وہاں قیاس پیدا ہو گا، جس سے دہشت گردی کے خطرات پیدا ہو جائیں گے، اس صورت میں افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گردوں کی جڑیں بھی مضبوط ہو سکتی ہیں۔عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں اس ابتر صورتحال کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی بہت کچھ برداشت کر چکا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی دہرایا کہ اسلام آباد حکومت افغانستان میں استحکام چاہتی ہے کیونکہ اسی صورت میں پاکستان میں بھی دہشت گردی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔