مظفرآباد (ویب نیوز)
تمام اضلاع میں دعائیہ تقریبات اور شہداء کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی
آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس نے قائدمسلم کانفرنس سردارعتیق احمدخان کی ہدایت پر آزادکشمیر بھر اور پاکستان میں مقیم کشمیریوں نے ”یوم شہدائے کشمیر ”عقیدت واحترام سے منایا۔تمام اضلاع میں دعائیہ تقریبات اور شہداء کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔مرکزی تقریب دھیرکوٹ مجاہد اول ہائوس غازی آباد میں منعقد ہوئی۔ تقریب سے قائدمسلم کانفرنس سردارعتیق احمدخان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد الحق پاکستان19جولائی کو سرینگرمیں منظور ہوئی اور ہم نے فیصلہ کیاکہ یہ ہفتہ الحاق پاکستان کے طور پر منایاجائے۔آج سارے آزادکشمیر اور پورے پاکستان بھر اورمہاجرین جموں وکشمیر ان کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہرگھر میں دعائیہ تقریب کا انعقاد کررہے ہیں۔ہم سب خوش قسمت ہیں کہ ہمارا تعلق تحریک آزادی کشمیر کے اولین مورچے سے ہے۔ اس کی بنیاد 13جولائی سرینگر میں پڑی اور شہادتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے6لاکھ کشمیری شہیدہوگئے اور تحریک آزادی کشمیر اب بھی جاری وساری ہے تحریک آزادی کمزور نہیں ہوئی۔ان شاء اللہ تحریک آزادی ضروری کامیاب ہوگی اور شہداء کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ ہندوستانی فوج کے مظالم بدستور جاری ہے ۔ہم کشمیری شہداء کوخراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور حریت قائدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔مہاجرین جموں وکشمیر تحریک آزادی کا عظیم سرمایہ ہیں انہیں ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کی۔ہندوستان مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کررہا ہے۔ ہم قائدملت چوہدری غلام عباس اور مجاہد اول سردارعبدالقیوم خان کا پیغام اور حریت قائدین کے پیغام کو آگے لے کرچلنا ہے۔ہم شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اور یہ سارا ہفتہ یوم الحاق پاکستان کے طور پرمنائیں گے۔ اور19جولائی کو یوم الحاق پاکستان منائیں گے۔16جولائی کو مجاہداول کی برسی ہے میں سب کو دعوت دیتا ہوں اور کہتاہوں کہ مجاہد اول کے ایصال ثواب کیلئے اپنے قرب وجوار کی مساجد میں بھی اور گھروں میں بھی دعائیہ تقریب کا اہتمام کریں۔انہوں نے کہاکہ شہدا کشمیر قوم کے محسن ہیں انہوں نے سرینگر جیل کے باہر جانوں کی قربانیاں کر کے کشمیر کیلئے جس منزل کا تعین کیا تھا وہ منزل پوری قوم کی نظر وں کے سامنے ہے اور اس کے حصول کیلئے قربانیوں کو یہ سلسلہ جاری ہے اور اب وہ دن دور نہیں جب یہ قربانیاں رنگ لائیں گی اور مقبوضہ کشمیر کی عوام آزاد فزاؤں میں سانس لیں گے 13جولائی 1931کو سرینگر سینٹرل جیل کے سامنے 22افراد نے اپنی جانیں قربان کی تھیں،یہ ہجوم توہین قرآن کے واقعات کے خلاف احتجاج کرنے والے عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت کے موقع پر جمع تھا اور نماز ظہر کا وقت ہونے پر ہجوم سے ایک شخص نے آذان دینا شروع کی جسے ڈوگری سپاہیوں نے گولی مار کر شہید کیا تھا،اس آذاد کو مکمل کر نے کے 22افراد نے اپنی جانیں قربان کیں آج اس عظم قربانی کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے 22شہدا کی اس قربانی میں جس تحریک کی بنیاد رکھی ہے وہ اب بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور کشمیر آزاد ہو گا۔
کشمیری مسلمان گزشتہ دو صدیوں سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔پروفیسر تقدیس گیلانی
آزاد کشمیر کی پارلیمانی سیکرٹری برائے سماجی بہبود وترقی ونسواں پروفیسر تقدیس گیلانی نے کہا ہے کہ 13جولائی شہدائے سرینگر کی لازوال قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں 13جولائی کو کشمیری عوام نے حکومتی مظالم کے خلاف اٹھائی تھی13جولائی یوم شہدائے کشمیرکشمیر کی تاریخ میں 13 جولائی 1931 کا دِن بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ دن 13 جولائی 1931 کا یہ واقعہ تحریک آزادی کشمیر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیری مسلمان گزشتہ دو صدیوں سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔یہی وہ دِن تھا جب شہیدوں کے خون سے تحریک حریت کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا اْنہوں نے کہا کہ ہندو کانسٹیبل کے ہاتھوں توہینِ قْرآن پر احتجاج کیا تھایہ جلسہ اختتام پزیر ہونے ہی والا تھا کہ اچانک مجمع سے اجنبی نوجوان عبدالقدیر خان کھڑا ہوا اور اس نے عوام کو مخاطب کرتے ہوے انہیں ظلم کے خلاف اْٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیاس واقعہ کے بعد ریاست کی حکومت نے عبدالقدیر خان کو گرفتار کر لیا اور اِس پر عوام کو بغاوت پر اْکسانے کا مقدمہ درج کر دیایہ مقدمہ چونکہ اپنی نوئیت کا پہلا مقدمہ تھااس لیے عام لوگوں کو مْلزم سے ہمدردی اور اس مقدمے سے بڑی دلچسبی پیدا ہو گئی ان خیالات کا اظہار انہوں نیو 13جولائی 1931 کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنٹرل جیل کشمیر میں عبدالقدیر خان پر قائم کردا مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوااِس موقعہ پر مْلزم سے اخوت و یکجہتی کے مظاہرے کے لئے ہزاروں افراد جیل کے اخاطے کے باہر جمع ہو گئے ابھی سماعت جاری تھی کہ نماز ظہر کا وقت ہو گیا اس موقع پر عوام نے جیل کے نزدیک نماز کے اہتمام کے لئے آذان دینی چاہی تو ان کے اس ارادے کی راہ میں ریاستی پولیس حائل ہو گئی چنانچہ جونہی اک نوجوان نے آزان دینا شروع کی تو پولیس نے اس نوجوان کو گولی مار کے شہید کر دیا اس کے شہید ہوتے ہی اک اور نوجوان اْٹھااور اْس نے اپنے پیش رو کی جگہ آزان دینی شروع کر دیـپولیس نے اس نوجوان کو بھی شہید کر دیا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور آزان کی تکمیل تک 22 فرزندان اسلام شہید کر دیئے گئے اس ایمان افروز واقع نے پوری ریاست کشمیر میں آگ لگا دی اورکشمیر میں جدوجہد آزادی کا باقائدہ آغاز ہو گیا ـ اہل کشمیر ہر سال13 جولائی کو اسی واقع کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اسے یوم شہداء کے طور پر مناتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہر سال 13 جولائی کو دنیا بھر کے کشمیری ان شہدا ء کی یاد میں یوم شہداء کشمیر مناتے ہیں جنہوں نے ڈوگر کی طرف سے برسنے والی گولیوں کا راستہ اپنے سینے سے روکا لیکن اپنے عزم میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ لیکن بدقسمتی سے بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، آج ہندوستان کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی تمام بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں اور کرفیو کا سماں ہے۔13 جولائی 1931 جموں و کشمیر کی تاریخ کا سنگ میل ہے کیونکہ اس دن کشمیری پہلی بار اجتماعی طور پر جابرانہ خود مختار حکومت کے خلاف مزاحمت کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔
یوم شہدائے کشمیر’پاسبان حریت کے زیر اہتمام ریلی ‘مرکزی شاہر اہ پر مارچ
ریاست بھر میں 13 جولائی 1931 کے شہداء کی یاد میں”یوم شہدائے کشمیر” منایا گیا۔ دارالحکومت میں پاسبان حریت جموں کشمیر کے زیر اہتمام ریلی کا انعقاد کیا گیا۔شہدائے کشمیر کے حق میں فلک شگاف نعرہ بازی’بھارت سے آزادی تک جدوجہد کو ہر صورت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار مقررین کے خطابات۔تفصیلات کیمطابق ریاست جموں کشمیر کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے 13 جولائی 1931 کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ دارالحکومت کے برہان وانی شہید چوک میں پاسبان حریت جموں کشمیر کے زیر اہتمام ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ ریلی کی قیادت مختلف سیاسی ,مذہبی جماعتوں کے قائدین کر رہے تھے۔ شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 22 نوجوانوں نے 13 جولائی کے شہداء کی یاد میں کفن پہن رکھے تھے۔ ریلی کے شرکاء نے شہداء کشمیر, آزادی اور اسلام کے حق میں فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ بھارتی فوجی قبضے, ڈوگرہ سامراج اور ہندو انتہاء پسندوں کیخلاف بھی شدید نعرے بازی کی گئی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کے آج ہی کے دن 91 برس قبل کشمیر کے سرفروش جوانوں نے آذان کی تکمیل کرتے ہوئے ڈوگرہ پولیس کا جرات ایمانی کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ کفر اور ہندوانتہاء پسندی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے رہے تادم آخر آذان کو مکمل کرتے ہوئے شہادت پائی۔ مقررین نے کہا کے 13 جولائی کا واقع اس بات کا ثبوت ہیکہ جموں کشمیر میں ایک صدی کے قریب سے اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ آرائی جاری ہے۔ انکا کہنا تھا کہ 1931 کے بعد سے کئی واقعات میں ڈوگرہ پولیس نے ریاست کے مختلف علاقوں میں نہتے مسلمان شہریوں کو شہید کیا۔ کئی بار ڈوگروں نے منصوبے کے تحت اسلامی شعائر کی توہین کی اور اس پر احتجاج کرنے والے نہتے مسلم شہریوں پر جان لیوا حملے کیئے۔ مقررین نے کہا کہ 13 جولائی کے عظیم المرتبت شہداء سمیت ان لاکھوں شہیدوں کے مقدس لہو کی حفاظت کی جائے گی, بھارت سے آزادی, ریاست کے اسلامی تشخص کے تحفظ کیلئے تحریک کو ریاست گیر مزاحمتی تحریک میں بدلنے کی کوشش کی جائے گی۔ مقررین نے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کے سوا دو کروڑ عوام کے سیاسی, مذہبی اور سماجی حقوق بھارت سے آزادی سے ہی ممکن ہے۔ مقررین نے 13 جولائی کے شہداء کشمیر کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ریلی کے شرکاء نے برہان وانی چوک سے ڈسٹرکٹ کمپلیکس تک مرکزی شاہراہ پر مارچ کیا۔