سیلاب سے ملک بھر میں 3600 کلومیٹر سڑکیں، 356 چھوٹے بڑے رابطہ پل، 1142 دکانیں اور 20 لاکھ گھر جزوی متاثر یا مکمل تباہ ہوئے
اسلام آباد (ویب نیوز)
حالیہ مون سون سیزن کی بارشوں نے خدشات سے کئی گنا زیادہ نقصان پہنچایا ، ملک میں اب تک حالیہ بارشوں اور سیلاب سے 1128 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اس میں ہر روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن(ایف ایف ڈی)نے مطلع کیا ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران نوشہرہ کے مقام پر دریائے کابل میں بارش جاری رہنے کا امکان ہے۔کالاباغ میں دریائے سندھ اورچشمہ میں اگلے 24 گھنٹوں کے دوران اونچے درجے کا سیلاب آنے کا امکان ہے۔ تمام متعلقہ وفاقی وزارتیں اور محکمے، پی ڈی ایم ایز (PDMAs)، آبپاشی کے محکمے، متعلقہ ضلعی اور شہری انتظامیہ کو کسی بھی اطلاع کی صورت میں فوری کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان فلڈ سیل کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ میں ضلع اٹک میں خیرآباد کے مقام پر جب کہ دریائے کابل میں وارسک کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔فلڈ سیل کے مطابق وارسک کے مقام پر دریا سے پانی کا بہائو 213,000 کیوسک ہے جبکہ دریائے کابل میں نوشہرہ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ایری گیشن فلڈ کنڑول کے مطابق دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر پانچ کے سطح مزید بلند ہو رہی ہے چونکہ علاقے سے 210,000 کیوسک پانی کا ریلاگزر ا۔محکمہ موسمیات کے مطابق دریائے سندھ میں گدو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ گڈو میں دریائے سندھ میں پانی کا بہائو 5,24,000کیوسک جبکہ سکھر بیراج کے مقام پر پانی کا بہا 5,66,000کیوسک ہے۔ دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جبکہ پانی کا بہائو 4,70,000 کیوسک ہے۔ 50 سے زائد شہروں سے اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار میں ملک کے 151 شہروں میں سیلاب اور بارش کے نتیجے میں ہونے والی اموات، تباہی اور نقصانات کے دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے ہیں۔سرکاری حکام نے 2022 کی مون سون بارشوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیلاب کی صورتحال کو ملکی تاریخ کی بدترین موسمیاتی تبدیلی قرار دیا ہے اور حالیہ سیلاب کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات 2005 کے تباہ کن زلزلہ اور 2010 کے سیلاب سے بڑھ گئے ہیں۔حکام کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا بدترین نشانہ بنا جس کے نتیجہ میں بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختونخوا ، پنجاب ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر تباہی برپا ہوئی۔سیلاب کے باعث ہونے والے جانی و مالی نقصان ، مویشیوں کی ہلاکت اور فصلوں کی تباہی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے چونکہ ملک کے 110 اضلاع میں ابھی بھی سیلابی صورتحال پائی جاتی ہے۔قدرتی آفات کے نمٹنے کے وفاقی، صوبائی اداروں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ، پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی گئی تازہ ترین معلومات کے مطابق سب سے زیادہ 351 اموات سندھ میں ہوئی ہیں، بلوچستان میں 273 خیبر پختونخوا میں 235 جبکہ پنجاب میں 203 افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح آزاد جموں کشمیر میں 47 اور گلگت بلتستان میں 19 افراد لقمہ اجل بنے۔ بارش اور سیلاب کے باعث ملک بھر میں 3600 کلومیٹر سڑکیں، 356 چھوٹے بڑے رابطہ پل، 1142 دکانیں اور 20 لاکھ گھر جزوی متاثر یا مکمل تباہ ہوئے۔ این ڈی ایم اے کے اعلیٰ افسران نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملکی زراعت اور مویشیوں کو پہنچنے والے نقصانات 1992 کے سیلاب کے نقصانات سے بھی زیادہ ہیں اور انہوں نے تمام سابق ریکارڈ توڑ دیئے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق بارش اور سیلاب نے 40لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی مختلف فصلوں کو تباہ کر دیا۔ تقریبا 20لاکھ مویشی (بشمول بھیڑ بکریاں، گائے، بھینسیں)ہلاک ہو چکے ہیں جس سے ملک میں خوراک کے بحران کا خدشہ لاحق ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق سیلاب کے باعث 3 لاکھ ایکڑ رقبے پر چاول کی فصل، 7لاکھ ایکڑ پر کپاس کی فصل ، 3لاکھ ایکڑ پر گنے کی فصل جبکہ 8لاکھ ایکڑ پر مکئی، غلہ، چنے، کالی مرچ، سرخ چنے، دالوں اور جانوروں کے چارے کی فصل تباہ ہو گئے۔سرکاری حکام کے اندازے کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملکی زراعت کو 800 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب نے 40لاکھ ایکڑ مربع کلومیٹررقبے پر کھڑی فصلوں کو تباہ کیا ہے جس کے باعث رواں سال زرعی پیداوار میں 29 فیصد کمی کا خدشہ ہے۔ آزاد کشمیر میں سیلاب کے باعث 36 دکانیں، 501کو جزوی نقصان پہنچا یا مکمل تباہ ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں 800سے زائد مویشی ہلاک جبکہ 100ہوٹلوں ، پن چکیوں، نجی بجلی گھروں، آبپاشی کے چینلز، گاڑیوں اور پن بجلی گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ صوبے میں ایک درجن کے قریب چھوٹے ڈیم، 1110 کلومیٹر سڑک، 78پل اور 426,897گھروں کو نقصان پہنچا اور 10 لاکھ سے زائد مویشی بھی ہلاک ہو گئے۔پی ڈی ایم اے اور ضلعی کمیٹیوں کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث 273افراد جاں بحق، 302زخمی ہوئے 29,818 گھروں کو نقصان پہنچا جن میں سے 8423 مکمل تباہ ہو گئے جبکہ 21,4325 کو جزوی نقصان پہنچا۔ نقصانات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ بارش اور سیلاب کے باعث گلگت بلتستان میں 11کلومیٹر سڑکیں ، 53 چھوٹے پل، 740 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ بابوسر غذر سے سیلاب کے باعث 4افراد اب تک لاپتہ ہیں جبکہ 22 بجلی گھراور 500کے قریب آبپاشی کے چینلز تباہ ہو گئے۔گلگت میں 70گھر، سکردو میں 60گھر، دیامر میں 101گھر، غذر میں 78گھر، گانچھے میں 78 گھر، ہنزہ میں 14گھر اور نگر میں 19گھر بارشوں اور سیلاب کے باعث تباہ ہو گئے۔ بارش اور سیلاب کے باعث ہونے والی ان تباہ کاریوں میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر 3900ایکڑ رقبے بشمول 130 ایکڑ گلگت، 1700 ایکڑ سکردو، 1900 ایکڑ دیامر، 1800 ایکڑ غذر، 170 ایکڑ گانچھے، 360 ایکڑ نگر اور 170ایکڑ کھرمنگ اور شگر میں فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔علاوہ ازیں گلگت میں ایک کروڑ پچاس لاکھ، سکردو میں 2 کروڑ، دیامر اور غذر میں تین، تین کروڑ، گانچھے میں ساڑھے تین کروڑ ، ہنزہ میں پانچ لاکھ ، نگر میں اڑھائی کروڑ ، کھرمنگ میں 50لاکھ ، شگر میں ساٹھ لاکھ اور استور میں 20کروڑ پھلدار درختوں درختوں کو نقصان پہنچا ہے۔مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث صوبہ خیبر پختونخوا میں 234 کلومیٹر سڑکیں، مواصلاتی رابطے کے ذرائع تباہ ہو گئے جبکہ37 پلوں اور 326,897 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔گزشتہ روز کے سیلابی ریلے میں ضلع سوات کے کئی بڑے ہوٹل اور قیمتی عمارتیں بہہ گئیں۔ صوبے میں قدرتی آفت کے دوران 7,742مویشی ہلاک ہو گئے۔خیبر پختونخوا میں بارش اور سیلاب سے اب تک 235 اموات اور ساڑھے 400 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔سیلاب کے باعث کوہستان میں 17 میگاواٹ رینولیہ پن بجلی گھر جبکہ سوات میں 36 میگاواٹ داریل خور پن بجلی گھر کو شدید نقصان پہنچا۔ دریائے سوات میں طغیانی کے باعث زیر تعمیر 800 میگاواٹ مہمند ڈیم پن بجلی منصوبے کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے۔سیلاب سے ضلع مہمند میں منڈا ہیڈورکس پل بھی جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔صوبہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب کے باعث 2400 کلومیٹر سڑکوں، 422 اسکولوں، 234 پلیوں، 71 پلوں، 1032دکانیں اور 45000 پانی کے ذخائر کو نقصان پہنچا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 29لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلوں کو نقصان پہنچا۔ ضلع خیرپور میں 356,582ایکڑ ، گھوٹکی میں 3لاکھ ایکڑ ، سانگھڑ میں 3لاکھ ایکڑ دوسرے اضلاع میں اڑھائی لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ضلع خیرپور میں سیلاب سے 84,783جب کہ کشمور میں 8000سے زائد مویشی متاثر ہوئے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب نے پنجاب میں 315 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ 42 پل، 50دکانیں، 8لاکھ گھر ، 387سکولوں، 134صحت کے مراکز،7300آبپاشی کے چینلز اور 11 چھوٹے بجلی پیدا کرنے والے مرکز متاثر ہوئے۔ صوبے کے 7لاکھ مویشیوں کو نقصان پہنچاجبکہ 203افراد جاں بحق اور 300سے زائد زخمی ہوئے۔ صوبہ پنجاب میں مجموعی طور پر ایک کروڑ افراد بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے۔ سب سے زیادہ لوگ ضلع راجن پور میں 704,695، جب کہ ڈیرہ غازی خان میں 512,838 متا ثر ہوئے۔ لیہ اور میانوالی میں چار چار لاکھ کی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئے جب کہ مظفر گڑھ کے پانچ لاکھ افراد بارش اور سیلاب سے متاثرہوئے۔ 8 لاکھ گھر بارش سے مکمل تباہ یا متاثر ہوئے۔سیلاب کے باعث 15 لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلیں تباہ ہو گئیں ۔ راجن پور میں 7 لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلوں کو نقصان پہنچا۔ جب کہ ڈیرہ غازی خان میں 67لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلیں متا ثر ہوئیں۔ اسی طرح ضلع لیہ اور بھکر میں بھی 3لاکھ ایکڑ رقبے پرفصلوں کو نقصان پہنچاجب کہ مظفر گڑھ میں 7850ایکڑ، میانوالی میں 2,153ایکڑ اور سیالکوٹ میں 800ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئیں۔این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کی 1220سے زائد ٹیمیں اور ضلعی انتظامی کمیٹیاں 17000سکیورٹی اہلکاروں کی مدد سے پاکستان کے 150شہروں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افواج پاکستان کے 7500افراد ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی پھنسے ہوئے لوگوںکو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے ، خوراک اور ادویات کی فراہمی اور ہزاروں کی تعداد میں متاثرین کی ریلیف کیمپوں میں منتقلی میں مصروف ہیں۔ ایدھی فائونڈیشن، مسلم ہینڈز، الخدمت فائونڈیشن پاکستان ، اخوت فائونڈیشن،شاہد آفریدی فائونڈیشن کے 3000سے زاہد رضاکار سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں۔شمال میں صوبہ خیبرپختونخوا میں ایبٹ آباد، باجوڑ، بونیر، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، ہری پور، کرک، خیبر، کرم، لوئر چترال، مردان، نوشہرہ، اپردیر، اپر کوہستان اور اپرچترال کو سیلاب کے باعث بدترین نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب نے بلوچستان کے ضلع زیارت، دکی، نصیر آباد، جعفر آباد، صحبت پور، چمن، آواران، کچی، بولان، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، نوشکی، پشین، جھل مگسی، پنجگور، شیرانی، قلات، سوراب، کیچ، مستونگ، قلع عبداللہ ، لورالائی، موسیٰ خیل اور چاغی کو متاثر کیا۔صوبہ سندھ میں سیلاب سے ضلع لاڑکانہ، شہید بے نظیر آباد، مٹیاری، ٹنڈواللہ یار، حیدرآباد، بدین، جیکب آباد، عمرکوٹ، نوشہروفیروز، کشمور، دادو، سجاول، خیرپور، گھوٹکی، سانگھڑ، قمراور کیماڑی بری طرح متاثر ہوئے۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیلاب نے ضلع راجن پور، ڈیرہ غازی خان، لیہ، میانوالی، بھکر، مظفرگڑھ اور سیالکوٹ کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جیسا کہ پاکستان میں رواں سال معمول سے 3 گنا زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں جس نے گزشتہ 40سال کا ریکارڈ توڑ دیا، حکومت پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی ممالک اور اداروں سے سیلاب زدگان کی امداد کی اپیل کی ہے۔امدادی کاموں میں مصروف حکام نے کہا کہ ہر گزرنے لمحے کے ساتھ سیلاب زدگان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔