پاکستان کسی کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بننا چاہتا، امریکہ سمیت اپنے دیرینہ دوستوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے،صدر عارف علوی
پاکستان کسی پولرائزیشن اور کسی کیمپ کا حصہ بننے کا خواہاں نہیں، نئے دور میں دنیا کو ایک نئے انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے
پاک ترکیہ کے درمیان تعلقات اور باہمی سرمایہ کاری کو مزید تقویت دینے کے لئے ہمیں نئے مواقع تلاش کرنے چاہئیں
پاکستان نے اقوام متحدہ کا احترام کیا لیکن مایوسی ہوئی ، مسئلہ کشمیر یو این کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے،صدرمملکت
بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن اسے بھی قدم بڑھانا چاہئے، ہندوستان میں کچھ بھی ہو جائے وہ آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان پر الزام لگاتا ہے
بین الاقوامی اداروں کو بنیادی ڈھانچہ کی بحالی اور متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے، ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے سے گفتگو
اسلام آباد (ویب نیوز)
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ،بین الاقوامی اداروں کو بنیادی ڈھانچہ کی بحالی اور مشکلات کے شکار ہزاروں لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تعلقات اور باہمی سرمایہ کاری کو مزید تقویت دینے کے لئے ہمیں نئے مواقع تلاش کرنے چاہئیں، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے، پاکستان سمیت امت مسلمہ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی سوچ کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے حملوں اور انہیں الگ تھلگ کرنے پر فکر مند ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے جیسا کہ دنیا معاشی بحران سے گزر رہی ہے، پاکستان کسی پولرائزیشن اور کسی کیمپ کا حصہ بننے کا خواہاں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے ستمبر میں دورہ پاکستان کا خیرمقدم کریں گے، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان امت مسلمہ کا بہت گہرا اور دیرپا رشتہ ہے، حقیقی معنوں میں تو یہ 1400 سال پر محیط ہے لیکن ریاستی حیثیت کے لحاظ سے جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے یہ رشتہ عوام کی سطح پر ہے ، 1880 کی دہائی میں جب ترکیہ روس کی جنگ اور زلزلوں وغیرہ سے گزرا تو برصغیر کے مسلمانوں نے بھی فنڈز بنائے اور مختلف جنگوں میں ترکیہ عوام کے ساتھ لڑنے کے لئے لوگوں کو بھیجا ، قطع نظر اس کے کہ اقتدار میں کون آتا ہے دونوں ممالک کے درمیان گہرے افہام و تفہیم اور گہرے تعلقات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں جب بھی ترکیہ کے لوگوں سے ملا ہمیشہ ان سے متاثر ہوا، یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ جیسے ہی کسی نے اپنی شناخت پاکستانی کے طور پر کی تو استنبول اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر محبت ہی محبت ملی، پاکستان اور ترکیہ کی یہ دوستی بہت گہری ہے ،پاکستان اور ترکی کے صدور اور وزرائے اعظم ہمیشہ اس کا اظہار حقیقی معنوں میں کرتے ہیں۔صدر عارف علوی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ تعاون کرتے ہیں ، یہ تعاون آج بہت اہم ہے کیونکہ دنیا بدل رہی ہے، ہمیں ان رشتوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے، نئے دور میں دنیا کو ایک نئے انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یوکرین جنگ کے دوران ترکیہ کے صدر اور وزیراعظم پاکستان نے امن کیلئے اہم کوشش کی کیونکہ ہم امن چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور باہمی سرمایہ کاری کو مزید تقویت دینے کے لئے ہمیں نئے مواقع تلاش کرنے چاہئیں، ترکیہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اسٹرٹیجک اہمیت ہے، حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کی سوچ ایک ساتھ ہونی چاہئے، یہ ہمیشہ ہمارے ایجنڈے پر رہے گا، یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات پاکستان اور ترکیہ کے لوگوں کے لئے اہم ہیں۔صدر مملکت نے پاکستان کے امریکہ، چین اور روس کے ساتھ تعلقات اور روس سے تیل اور اناج کی خریداری سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے، پاکستان امریکہ سمیت اپنے دیرینہ دوستوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے ،ہم چین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بننا چاہتا، پاکستان ایک آزاد ملک ہے، پاکستان ہر ایک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے خاص طور پر اس وقت پاکستان اور ترکیہ سمیت پوری دنیا معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں قوانین میں کس طرح ترمیم کی جائے گی اور آیا مستقبل میں بلاکس سے دنیا تقسیم ہو گی یا دنیا کو متحد ہو گی، ہم نے سرد جنگ ہوتے دیکھی ہے، ہم نے باہمی یقینی تباہی کے نظریہ پر عمل اس وقت دیکھا ہے جب دنیا بھر کے شہریوں کی محنت سے کمائے گئے کھربوں ڈالر سپرپاورز نے صرف ہتھیاروں کی تیاریوں پر خرچ کئے، یہ تصادم پچھلے 10 سالوں میں، کم ہوا ہے اور ہم امید کریں گے کہ مستقبل میں نئے بلاکس کے درمیان مفاہمتیں ابھریں گی، طاقت کے نئے بلاکس کو فروغ دینا چاہئے اور اقدامات کے بارے میں سمجھوتہ کو فروغ ملنا چاہئے کیونکہ بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں یہ دنیا کے لئے بھلائی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے بعض علاقوں میں خشک سالی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں شدید بارشوں اور تباہی کی صورتحال کے پیش نظر دنیا کے تمام ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ چین اور امریکہ پاکستان کے دیرینہ اور اچھے دوست ہیں، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہیں جبکہ امریکہ کے ساتھ ہم تعلقات بہتر کر رہے ہیں۔صدر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کے ترکیہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، پاکستان اس وقت اس مقام پر ہے جہاں وہ دنیا میں امن کی توقع رکھتا ہے، ہمارا کردار پرامن ہونا چاہئے، ہمارا کردار افغانستان میں امن کی تلاش میں ہونا چاہئے کیونکہ یہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات اور سمندر تک سامان کی نقل و حمل کے لئے بہت ضروری ہے، یہ اقتصادی خوشحالی کا راستہ ہے، پاکستان سمیت تمام ممالک افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چین کے گہرے دوست ہیں، ہمارے پاس چین پاکستان اقتصادی راہداری کی شراکت داری ہے جو ہمارے اقتصادی مفاد کے لئے بہت اہم ہے، پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور صرف چین ہی نہیں دنیا کو ہمارے افرادی وسائل میں دلچسپی ہے، دنیا ہمارے نوجوانوں کی آئی ٹی سیکٹر اور دیگر شعبوں میں صلاحیتوں سے استفادہ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ جہاں تک دنیا کے آئی ٹی سیکٹر کا تعلق ہے تو اس شعبہ میں انسانی وسائل کی شدید کمی ہے، چین کے ساتھ ہمارا تعاون توانائی کی صورتحال، غربت کے خاتمے اور روزگار کے مواقع سمیت تمام شعبوں میں موجود ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے راستے ان کے سامان کی نقل و حرکت کے لئے ہے جو چین کے سامان کو مغربی صوبوں سے سمندر تک، بیجنگ یا دیگر بندرگاہوں کے قریب لے جانے سے زیادہ آسان ہے، چین کے ساتھ ہمارا تعاون بہت مثبت رہا ہے اور یہ اسی طرح جاری رہے گا۔ عارف علوی نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن کیا ہندوستان بھی امن چاہتا ہے اس کا مجھے یقین نہیں ہے ، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات امن کے لئے ایک سنگین دھچکہ تھے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی سیاست اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، یہ کشمیری عوام کے لئے بہت تکلیف دہ اقدام ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے، بھارت یہ معاملہ خود ہی اقوام متحدہ میں لے گیا ورنہ کشمیر تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی پاکستان کا حصہ ہوتا اور پاکستان نے دنیا کی نئی ابھرتی ہوئی تنظیم اقوام متحدہ کا احترام کیا لیکن پاکستان کو مایوسی ہوئی ہے،جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے بھارت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، یہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی سوچ کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے حملوں اور جس طرح سے ہندوستان میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے، پر بھی فکر مند ہیں اور امت مسلمہ بھی اس کے بارے میں فکر مند ہے ، یہ ہمارے لئے،ترکیہ اور مسلم دنیا کے تمام ممالک کے لئے بھی تکلیف دہ بات ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اقلیتیں امن سے رہ سکیں،جب اقلیتوں کو گھیر لیا جاتا ہے یا مارا پیٹا جاتا ہے یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے تو اس سے بدامنی پیدا ہوتی ہے، پاکستان دوسرے ممالک سے زیادہ فکر مند ہے کیونکہ ہم پڑوسی ہیں، بھارت میں کچھ بھی ہو جائے وہ آسان راستہ اختیار کرتا ہے اور پاکستان پر الزام لگاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرات کے فسادات سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، پاکستان درحقیقت ان فسادات کی مذمت کرتا ہے، درحقیقت پاکستان دنیا کے تمام مسلمانوں کی آواز ہے، ترکیہ نے بھی مسلمانوں کیلئے آواز اٹھائی اور اس کا اسلامی ممالک کی تنظیم(او آئی سی)میں اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن بھارت کو بھی امن کی طرف قدم بڑھانا چاہئے، یہ کہہ کر کہ کشمیر پر بات نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے، بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے موجودہ حکومت کی پالیسیاں عمران خان کی سابقہ حکومت کی پالیسیوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے، اس کا تعلق ہماری معیشت سے بھی ہے، اگر افغانستان میں امن ہے تو پاکستان افغانستان کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے اور میں افغانستان میں نئی حکومت پر یقین رکھتا ہوں، پاکستان کا ان کو مشورہ ہے کہ خواتین کی تعلیم کو بہتر بنائیں کیونکہ دنیا کی توجہ چند چیزوں پر ہے۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ بعض اوقات سیاسی پولرائزیشن انتہائی حد تک بڑھ جاتی ہے، میرا کردار اس سیاسی پولرائزیشن کو کم کرنے کی کوشش کرنا ہے، یہ ایک جمہوریت ہے ، پاکستان ایک جمہوریت ہے اور پاکستان آہستہ آہستہ ایک مضبوط جمہوریت بن رہا ہے، ہم ان آزمائشوں اور فتنوں سے گزر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آزاد میڈیا ہونے پر فخر ہے لیکن بعض اوقات حکومتوں کے کچھ اقدامات ایسی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں کہ میڈیا سچ اور صحیح باتوں کی رپورٹنگ کرنے سے گھبرا جاتا ہے، اس شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا ایک بڑا میڈیا ہے ، آج دنیا میں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ حساسیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین چند چیزوں پر بہت واضح ہے، پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ آپ عدلیہ اور مسلح افواج پر تنقید نہ کریں ، مسلح افواج پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے زبردست کام کر رہی ہیں۔ پاک فوج اور پاکستانی عوام ہی تھے جنہوں نے بہادری سے جنگ لڑی اور دہشت گردی کو شکست دی، ہم نے جزوی نقصان اٹھایا لیکن اس کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں ہوا، فوج کا ایک زبردست تعاون تھا۔ صدر مملکت نے کہا کہ وزیر اعظم کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ،پاکستان کو بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے ، بین الاقوامی اداروں کو بنیادی ڈھانچہ کی بحالی اور مشکلات کے شکار ہزاروں لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے، موسمیاتی تبدیلی سے بہت سے ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقتصادی بہتری کے حوالے سے اقدامات کئے جا رہے ہیں ،ترکیہ کی طرح پاکستان بھی معاشی دباو میں ہے، یوکرین کی صورتحال سے عالمی تجارت میں خلل پڑاجس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کورونا وبا کے دوران زبردست کام کیا۔