گزشتہ ماہ ایک کیس کا فیصلہ دیا جو 1972میں دائر ہوا تھا، چیف جسٹس اطہر من اللہ
ہمارا سول اور کرمنل کورٹس سسٹم ایک صدی پرانا ہے، دنیا بدل گئی مگر ہمارے قوانین ابھی بھی وہی پرانے ہیں
اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، عدلیہ کے ساتھ ایگزیکٹو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو تنازعات بہتر طریقے سے حل ہو سکتے ہیں
ضلعی عدالتیں 6 دہائیوں سے پراسیکیوشن برانچ کے بغیر کام کر رہی ہیں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیمینار سے خطاب
اسلام آباد( ویب نیوز)
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ ایک کیس کا فیصلہ دیا جو 1972میں دائر ہوا تھا، ریاست نے کبھی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو ترجیح نہیں دی۔ اسلام آباد میں ہونے والے انصاف کی تیز تر فراہمی سے متعلق بین الااقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے لیکن قوانین میں تبدیلی نہیں آسکی، آج بھی ہمارے کیسز غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ غیر ضروری تاخیر سے عام سائلین کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سائلین کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ضلعی عدالتیں 6 دہائیوں سے پراسیکیوشن برانچ کے بغیر کام کر رہی ہے، دارالحکومت میں ضلعی انتظامیہ کے پاس پراسیکیوشن برانچ نہیں ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم غیرمعمولی تاخیر کا شکار ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے تیز ترین انصاف کی فراہمی کیلئے اقدامات کرے، ہمارا سول اور کرمنل کورٹس سسٹم ایک صدی پرانا ہے، دنیا بدل گئی مگر ہمارے قوانین ابھی بھی وہی پرانے ہیں، سب سے بڑا مسئلہ جس کا سامنا ہے وہ انصاف میں تاخیر کا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سسٹم میں کرپشن کی وجہ سے بھی سسٹم کی بربادی ہوئی، ہمیں لوگوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے ریفارمز کی ضرورت ہے، ان سب کی صرف عدلیہ ذمہ دار نہیں ایگزیکٹو بھی ذمہ دار ہے۔