سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا،اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو صورتحال سے بچا جا سکتا تھا

 سیاست دان مناسب فورمز کے بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں لیکن عدالت ہرصورت ہار جاتی ہے

سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو  اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریوں کو  پورا کرنا چاہیے

جسٹس اطہرمن اللہ کا  25 صفحات پر تفصیلی نوٹ جاری

اسلام آباد (ویب نیوز)

پنجاب اور خیبرپختونخوا(کے پی) میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ 25 صفحات پر مشتمل ہے۔ تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ سیاست دان مناسب فورمز کے بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں لیکن عدالت ہرصورت ہار جاتی ہے، سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو  اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریوں کو  پورا کرنا چاہیے۔اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو صورتحال سے بچا جا سکتا تھا،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا،  ملک ایک سیاسی اور آئینی بحران کے دہانے پرکھڑا ہے،  وقت آگیا ہے کہ تمام ذمہ دار  ایک قدم پیچھے ہٹیں اور کچھ خود شناسی کا سہارا لیں۔تفصیلی اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ میں جسٹس یحی خان آفریدی کے درخواستوں کو مسترد کرنے کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، میں نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل کے فیصلے کو پڑھا ہے اس لیے انکے حکمنامے سے بھی اتفاق کرتا ہوں۔، درخواستوں اور  از خود نوٹس کو  خارج کرنے کی تین بنیادی وجوہات ہیں،  فل کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 184 تھری کے استعمال کے بنیادی اصولوں کی پابندی بینچ پرلازم تھی، عدالت کو اپنی غیر جانبداری کے لیے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے، عدالت کو سیاسی درخواست گزار کا طرز عمل اور نیک نیتی بھی دیکھنی چاہیے، درخواست گزاروں کا رویہ اس بات کا متقاضی نہیں کہ 184/3کا اختیار سماعت استعمال کیا جائے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس لینے کا مطلب غیر جمہوری اقدار  اور حکمت عملی کو فروغ دینا ہوگا، ماضی کے فیصلوں کو مٹایا نہیں جاسکتا لیکن کم ازکم عوامی اعتماد بحال کرنیکی کوشش کی جاسکتی ہے، انتخابات کی تاریخ کامعاملہ ایک تنازع سے پیدا ہوا ہے جو  بنیادی طور  پر سیاسی نوعیت کا تھا، جسٹس یحیی آفریدی نے درست کہا کہ عدالت کو ازخودنوٹس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے،  سپریم کورٹ کو یکے بعد  دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا ہے۔تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پنجاب،کے پی الیکشن کا از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، میں جسٹس منصور علی شاہ  اور  جسٹس جمال مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں، سپریم کورٹ مسلسل سیاسی تنازعات کے حل کا مرکز بنی ہوئی ہے، 27 فروری کو  چائے کے کمرے میں اتفاق رائے ہوا کہ میں بینچ میں بیٹھوں گا، 23 فروری کی سماعت کے حکم میں جسٹس یحیی آفریدی کا الگ نوٹ بھی تھا، جسٹس یحیی آفریدی نے ناقابل سماعت ہونیکی بنیاد پر ازخود نوٹس اور  درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ واضح رہیکہ بینچ سے الگ ہوا نہ ہی اپنے مختصرنوٹ میں ایسی کوئی وجوہات دی تھیں، میں نے بھی اپنے نوٹ میں درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے  بارے میں بلا ہچکچاہٹ رائے دی، جسٹس منصور اور جسٹس مندوخیل کی تفصیلی وجوہات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں،عدالت کو سیاسی تنازع سے بچنے کے لیے اپنے نوٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی، فل کورٹ کی تشکیل سے عوامی اعتماد قائم رہتا، ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو  غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے،جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ میں قاسم سوری رولنگ کیس کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن میں جانے کے بجائے استعفے دیے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دور رس نتائج مرتب ہوئے، پی ٹی آئی کے اسمبلی سے استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی اور اس درخواست پر کارروائی شروع کرنے سے پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی۔ سوموٹو کی کارروائی شروع کرنے سے ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کرنے والے سائلین کے حقوق متاثر ہوئے۔اختلافی نوٹ کے مطابق اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا، ہر جج نے آئین کے تحفظ اور اسے محفوظ بنانے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ 23فروری کو میں نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ بنانے کی تجویز دی، عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دی جاتی۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال بہت زیادہ آلودہ ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز نے آئین کے تحفظ کا ایک جیسا ہی حلف اٹھا رکھا ہے، آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نہیں ہوتا اس لیے مناسب ہوتا ہے ہائی کورٹ کو معاملہ سننے دیا جائے۔فیصلے کے مطابق عدالتوں کا تلوار اور پیسے پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، ججز اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری اور شفافیت سے عزت کماتے ہیں۔ سیاسی نوعیت کے مقدمات میں عدالت کے انتظامی اور عدالتی اقدامات شفافیت پر مبنی ہونے چاہیے، کسی سیاسی فریق کو عدالتی عمل کی غیر جانبداری اور شفافیت پر شق نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ تحریک انصاف نے استعفوں کی منظوری کے لیے پہلے عدالتوں سے رجوع کیا اور سیاسی حکمت عملی کے تحت استعفے دیے لیکن استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف پھر عدالت چلی گئی، سیاسی حکمت عملی کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔فیصلے میں سوالات اٹھائے گئے کہ کیا ایسی سیاسی حکمت عملی آئین اور جمہوریت کے تحت مطابقت رکھتی ہے؟ کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا سپریم کورٹ کو ایسی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لیے اپنا فورم استعمال کرنے کی اجازت دینے چاہیے؟ کیا عدالت کو غیر جمہوری روایات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے؟یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کو تحریک انصاف کی فورم شاپنگ کا نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟ کیا غیرجمہوری روایات کی حوصلہ افزائی سے عوام کا سپریم کورٹ پر اعتماد مجروع ہوگا؟ ایسا کرکے عدلیہ غیر ارادی طور پر پارلیمنٹ کو کمزور کرے گی، سیاسی فریقین کو پذیرائی دینے سے قبل ان کو نیک نیتی ثابت کرنی چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی تنازعات میں عدالت کو شامل کرنا ستم ظریفی ہے، سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اپنائے جانے والا طرز عمل سنگین بحران پیدا کرے گا۔ سیاسی رہنماوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لیے کشمش عوام کی فلاح اور معاشی حالت کو متاثر کر رہی ہے۔فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے غیر جمہوری حکومتوں کی توثیق ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنیں، عوامی اداروں کو مظبوط نہیں ہونے دیا گیا جبکہ ملک میں 75سال گزرنے کے باوجود بھی عوامی ادارے کمزور ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی اور آئینی بحران کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر آچکا ہے، جب سیاست دان متعلقہ فورمز پر جانے کے بجائے عدالتوں میں مقدمات لاتے ہیں تو درخواست دہندہ تو جیت جاتا یا ہار جاتا ہے لیکن بالآخر عدالت ہار جاتی ہے،تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پنجاب،کے پی الیکشن کا از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، میں جسٹس منصور علی شاہ  اور  جسٹس جمال مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں۔یاد رہے کہ چیف جسٹس نے غلام محمد ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور 9  رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں 23 فروری کو ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی پہلی سماعت میں جسٹس اطہرمن اللہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے الگ سے نوٹ بھی تحریر کیا تھا جو اب تفصیلی طور پر جاری کردیا گیا ہے۔9 رکنی بینچ میں شامل 4 ججز بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے ازخود نوٹس کو مسترد کیا تھا جن میں جسٹس اطہر من اللہ کے علاوہ جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔۔