پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈکیس،چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب اورایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری

بتایا جائے کہالیکشن کمشنر پنجاب کے خط پر عملدآمد کیا یا نہیں، اگر نہیں کیا توکیوں نہیں کیا،عدالت کے ریمارکس

 آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ ،جسٹس محمد علی مظہر کا وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار

امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں،وکیل لطیف کھوسہ اگر کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے ہیں تواپیل دائر کردیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(  ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابات میں لیول پلئینگ فیلڈ فراہم کرنے کے حوالے  سے اپنے 22دسمبر کے حکم کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف کی توہین عدالت کی درخواست پر چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب پولیس اورایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمشنر پنجاب کی جانب سے 24دسمبر کو لکھے گئے خط پر جواب طلب کر لیا۔عدالت نے قراردیا ہے کہ بتایا جائے کہالیکشن کمشنر پنجاب کے خط پر عملدآمد کیا یا نہیں، اگر نہیں کیا توکیوں نہیں کیا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت سوموار تک ملتوی کردی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے ہیں تواپیل دائر کردیں۔ جائیں جاکراپیلیں دائر کریں اپنا وقت کیوں ضائع کررہے ہیں۔ توہین عدالت کی درخواست میں ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، مخصوص الزام لگائیں، آپ جنرل بات کررہے ہیں کوئی مخصوص بات کریں ہم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔جینو ئن بات کریں یہ نہ کہیں دنیا ہمارے خلاف ہو گئی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے 2013میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 35پنگچرز اوردھاندلی کے الزامات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے عدالت کااتنا وقت ضائع کیا اور عدالت نے قراردیا کہ کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے اورہر چیز مستردہوئی، عدالت نے سارے الزامات مستردکردیئے۔ ہم نے فیصلہ نہیں دیا دیگر ججز نے وہ فیصلہ دیا تھا۔الیکشن کمشنر ہم نے تعینات نہیں کیا بلکہ آپ نے تعینات کیا۔ 22دسمبر کے آرڈرسے سخت آرڈر ہم جاری نہیں کرسکتے، الیکشن کمیشن نے ہمارے آرڈر پر عملدرآمد کردیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اورچاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، آئی جی پولیس اوردیگر کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت شعیب شاہین کی جانب سے سردارلطیف خان کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیئر نہیں کیس آپ کی درخواست پر لگایا پھر آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔اس پر شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ لطیف کھوسہ دلائل دیں گے اور میں ان کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قوانین کا مذاق نہ بنائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل لطیف کھوسہ  کے ساتھ سردار کا نام ہونے پر لچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب توآپ کے بیٹے بھی سردار بن گئے ہیں، ہم نے اتنی مرتبہ کہا پھر سردارنام آجاتا ہے، معاشرے میں سب کا سٹیٹس برابر ہوتا ہے، سردار ، نواب اب عدالت میں نہیں چلے گا، 1976سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے ، آپ کی حکومت نے ہی سرداری نظام ختم کرنے کا قانون بنایا۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر پی ٹی آئی وکیل سردار لطیف کھوسہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ ان کے شناختی کارڈ پر سردار لکھا ہے اس لئے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا سردار اور نوابوں کو چھوڑدیں، اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا آپ کی اب درخواست کیا ہے؟جسٹس محمد علی مظہر نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے ہدایات کیا دی تھیں، کیا آپ الیکشن گئے کہ نہیں اورانہوں نے کیا جواب دیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ توہین عدالت کی درخواست ہے کوئی نیا کیس نہیں، مرکزی کیس 22 دسمبرکو نمٹایا جا چکا ہے، آپ کی درخواست میں بہت سارے توہین عدالت کرنے والوں کے نام ہیں،سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی، سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان، آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور، آئی چیف خیبر پختونخوا پولیس اخترحیات، آئی جی بلوچستان، آئی جی سندھ، چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اخترزمان،اوردیگر کے نام ہیں، الیکشن کمیشن نے کیا توہین عدالت کی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے کوئی فیصلہ دیا ؟ کیا الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمیشن کو احکامات دیے؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہم سے کیا چاہتے ہیں،یہ آئینی عدالت ہے یہاں آکر تقریر شروع کردیتے ہیں، آئی جی اورچیف سیکرٹری کا الیکشن کروانے سے کیا تعلق ہے، افراد کو پارٹی بنایا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پروف دکھائیں، روسٹرم پر کھڑے ہو کربول رہے ہیں۔ ہم کیوں یہ کررہے ہیں، الیکشن کمیشن نے کون سے آرڈر کی خلاف ورزی کی ہے، آئی جی اورچیف سیکرٹری کا کیا تعلق ہے، الیکشن کمیشن کا حکم الیکشن کے حوالے سے ہے، افرادکے خلاف کیوں توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں، صوبوں کے آئی جیز اورچیف سیکرٹریز کے خلاف کیوں توہین عدالت کی کاروائی چاہتے ہیں، اگر کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے ہیں تواپیل دائر کردیں۔ چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا الیکشن کمیشن نے کوئی توہین کی ہے تو ثبوت دکھائیں، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا میں سی ڈی لایا ہوں اس میں سارے ثبوت ہیں، ہمارے رہنمائوں کو کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرانے دیئے گئے، سارے پاکستان نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہاں سیاسی تقریرنہ کریں، آئین و قانون کی بات کریں، آپ کہہ رہے آئی جی اور چیف سیکرٹری نے کارروائی کی، آئی جی اور چیف سیکرٹری کا الیکشن سے کیا لینا دینا ہے؟  آئی جی اور چیف سیکرٹری نے نہیں، شفاف انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں، توہین عدالت کی درخواست الیکشن کمیشن کیخلاف ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے کون سے حکم کی توہین کی ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہم یہ توہین عدالت کی درخواست سن کیوں رہے ہیں، اگرآئی جی اور چیف سیکرٹری سے مسئلہ ہے تو ان کیخلاف درخواست دیں، آپ افراد کیخلاف کارروائی چاہتے ہیں یا الیکشن کمیشن کیخلاف؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتارہے ہیں، منظوری کا بھی توبتائیں، آپ نے لکھا، سوشل میڈیا کی مانیٹرننگ سے پتا چلا کہ اتنے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، کیا پی ٹی آئی کے پاس امیدواروںکے کاغذات منظور یا مسترد ہونے کا ڈیٹا نہیں؟ درخواست میں میجر فیملی لکھا ہے،کیا کوئی میجر انتخابات لڑ رہا ہے؟لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ 668امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل دائر کردے گا، آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا کردار ادا کرے؟ لطیف کھوسہ نے کہا صرف ایک سیاسی جماعت کے بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی مسترد ہو ئے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا مائیک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریرکر لیں، آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، بارہا کہا عدالتیں جمہوریت اور انتخابات کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں، ہمیں بتادیں کیا آرڈر کردیں،کاغذات نامزدگی پر اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کردیں ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر کورٹ نے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے اپیلوں کی سماعت کے لئے ٹریبونل بنائے ہیں، اگرریٹرننگ آفیسر کاآرڈر نہیں ملا تو بغیر آرڈر کے اپیل دائر کردیں، کوئی لون ڈیفالٹر ہوسکتا ہے،کوئی اورمعاملہ ہوسکتاہے، اخبارات کی لیڈ بنائیں لیکن ہمیں قانون بتائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ریمیڈیز دی ہیں ، ٹربیونل سے رجوع کریں، ہمیں آرڈر نہیں دیں، سی ڈی ہو گی، یہ ہو گیا وہ ہوگیا۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد نے پیش ہوکربتایا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو سنا اوراحکامات جاری کئے، 13جنوری کو پتا چلے گا کہ کس پارٹی کے کتنے امیدوار ہیں،اس وقت کل امیدواروں میں سے کتنے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے اورکتنے منظورہوئے یہ معلومات ہمارے پاس ہیں، آج کاغذات نامزدگی مسترد یا منظور ہونے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کی آخری تاریخ ہے اور10جنوری تک ان پر فیصلہ ہو گا۔ چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جائیں جاکراپیلیں دائر کریں اپنا وقت کیوں ضائع کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ سموتھ الیکشن ہوں، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا الیکشن تونہیںہورہا، ہم سوال پوچھ پوچھ کرتھک گئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس جو شکایت کی اس کی کاپی کدھر ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ شکائتیں تو چیف الیکشن کمشنر کوہوں گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ معاملہ پر فوکس کیوں نہیں کررہے، کیاآرڈر پر عمل ہوا کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 26دسمبر کو الیکشن کمیشن کی جانب سے 161صفحات پر مشتمل بڑی بھاری عملدآمد رپورٹ جمع کروائی گئی۔چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روزانہ ہم بیٹھ کروقت ضائع نہیں کریں گے، آج رات تک بیٹھے ہیں، کرلیں بات۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر ڈی آراوز اورآراوز کو ہدایات جاری کردیں۔وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا آپ مجھے بھی سن لیں میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں، تین دن سے ریٹرننگ افسرکے آرڈرکی کاپی نہیں ملی تو اپیل کہاں کریں؟ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا  الیکشن کمیشن نے 22 دسمبرکے حکم پر 26 دسمبرکو مفصل عملدرآمد رپورٹ دی۔لطیف کھوسہ نے کہا الیکشن کمیشن کی رپورٹ دیکھنے کیلئے کل تک کا وقت دے دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم کیا روز آپ کے کیس سنتے رہیں گے؟ عدالت کوئی اور کام نہ کرے؟ یار!اکھاڑا نہیں ہے، ہمیں بولنے دیں۔ آئی جی اورچیف سیکرٹری کا انتخابات کروانے کے حوالے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا آپ صوبائی الیکشن کمیشن کا خط بھی تو دیکھیں، جس پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط 24 دسمبرکو لکھا جبکہ عملدرآمد رپورٹ 26 دسمبر کو جمع ہوئی، الیکشن کمیشن نے26 دسمبرکے بعد کچھ کیا ہو تو بتادیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا آپ ویڈیو لگانے دیں،سب کچھ میڈیا پر آیا ہے، پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا جوپی ٹی آئی کے ساتھ ہوا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا کیونکہ میں تومیڈیا دیکھتا نہیں ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں نہ کریں جو لکھی نہیں ہیں۔ لطیف کھوسہ کا چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ گارڈین ہیں اورآپ نے صاف اورشفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔ اس پر لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ ہمارے کارکنان جب کاغذات جمع کرانے گئے تو پولیس نے کمشنر آفس کو سیل کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پھر ادھرادھرکی باتیں کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی بات کریں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا آپ نے الیکشن کمیشن میں جو شکایت درج کرائی وہ دکھائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ توہین عدالت کی درخواست میں ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، مخصوص الزام لگائیں، آپ جنرل بات کررہے ہیں کوئی مخصوص بات کریں ہم اس کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ الیکشن کمیشن میں کی گئی شکایت کی کاپی نہ دکھا سکے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، الیکشن ہو جائیگا آپ پھر شکایتیں درج کرا لینا، اب بھی وقت ہے، ریٹرننگ افسران کے فیصلے پر ٹریبونل سے رجوع کریں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے 2013میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 35پنگچرز اوردھاندلی کے الزامات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے عدالت کااتنا وقت ضائع کیا اور عدالت نے قراردیا کہ کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے اورہر چیز مستردہوئی، عدالت نے سارے الزامات مستردکردیئے۔ ہم نے فیصلہ نہیں دیا دیگر ججز نے وہ فیصلہ دیا تھا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشنر ہم نے تعینات نہیں کیا بلکہ آپ نے تعینات کیا۔ 22دسمبر کے آرڈرسے سخت آرڈر ہم جاری نہیں کرسکتے، الیکشن کمیشن نے ہمارے آرڈر پر عملدرآمد کردیا۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمیں لیول پلینگ فیلڈ نہیں دے رہے۔ اس پر ڈی جی لامحمدارشد کا کہنا تھا کہ ہم لیول پلیئنگ فیلڈ دے رہے ہیں،30شکایات ہمیں موصول ہوئیں، ہم نے آراوز کو احکامات جاری کئے۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا آپ کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے اسے استعمال کریں، اگر اپیل کے فورم سے ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارے جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے ہیں ان میں سے 90فیصد کے تجویز اورتائید کنندگان کو اٹھا کران کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا جو کچھ ہو رہا ہے یہ کبھی ملکی تاریخ میں نہیں ہوا، ملک میں بدترین صورتحال پرکوئی آنکھیں کیسے بند کرسکتا ہے؟لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ بدترین پری پول رگنگ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کاالزام کس کے خلاف ہے۔ اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ مدعا علیہان نمبر، دو، چار اورسات۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو صرف پنجاب سے مسئلہ ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفار کیا کہ کیا کمرہ عدالت میں پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل موجود ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے بتایا کہ موجود نہیں۔ چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو چیف سیکرٹری اورآئی پنجاب کے خلاف کارروائی کے لئے الیکشن کمیشن کے سامنے درخواست دائر کرنا چاہیے تھی۔ اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے درخواست دائر نہیں کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمشنر پنجاب لکھ رہا ہے تواس پر الیکشن کمیشن کودیکھنا چاہیے تھا۔چیف جسٹس نے سماعت کا حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے 24دسمبر کو الیکشن کمشنر پنجاب کی جانب سے آئی جی پولیس اورچیف سیکرٹری کو لکھے گئے خط کاحوالہ دیا ہے۔عدالتی حکم میں کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کہا کہ ہم صاف اورشفاف انتخابات کے سب کچھ کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 161صفحات پر مشتمل جامع عملدرآمد رپورٹ جمع کروائی۔ ہم نے درخواست گزار سے مخصوص شکایت کا پوچھا توانہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری پنجاب اورآئی جی پنجاب نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہدایات پر عملدآمد نہیں کیا۔ عدالت نے آئی جی پولیس پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کر دی اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن پنجاب کے خط کے جواب میں ہدایات جاری کی تھیں، بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات پرعملدرآمد ہوا یا نہیں؟اگر عملدرآمد نہیں ہواتوکیوں نہیں ہوا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر یہ لاہور ہائی کورٹ کامعاملہ تھا ، جینوئن بات کریں یہ نہ کہیں دنیا ہمارے خلاف ہو گئی ہے۔