کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔ عائشہ غوث پاشا
ملک میں ڈالر لانے کے لئے خسارے میں چلانے والے اداروں کی نجکاری ہوگی
وزیرمملکت خزانہ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ
ارکان کا سیکرٹری خزانہ اورگورنر سٹیٹ بینک کی غیر حاضری پر ان کے سمن جاری کرنے کا مطالبہ
آئندہ اجلاس میں متعلقہ آفیسران نہ آئے تو سرکاری ایجنڈا کارروائی میں شامل نہیں کیا جائے گا ،کمیٹی کا فیصلہ
وزارت خزانہ کے لئے بجٹ پر ہمیں اتنا زیادہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے ۔ برجیس طاہر
اسلام آباد( ویب نیوز)
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سیکرٹری خزانہ اورگورنر سٹیٹ بینک کی غیر حاضری پر ارکان نے دونوں اعلیٰ آفیسران کے سمن جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اجلاس میں متعلقہ آفیسران نہ آئے تو حکومتی ایجنڈا کارروائی میں شامل نہیں کیا جائے گا کمیٹی اجلاس کے اخراجات آفیسران سے وصول کیے جائیں گے۔اجلاس میں وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے دو ٹوک طور پر واضح کیا ہے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔آئی ایم ایف کی بعض نئی شرائط کو بھی تسلیم کیا گیا ہے تاہم عام ٹیکس گزاروں پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جبکہ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ سیاسی استحکام معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے سیاسی بے یقینی کی وجہ سے بھی ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے ڈالر کی قیمت کے معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتے۔جمعہ کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین قیصر شیخ کی صدارت میں ہوا مختلف بلز محرکین کی عدم موجودگی کے باعث موخر جبکہ ٹیکس قوانین کے حوالے سے ترامیم فنانس بل میں شامل ہونے پر حکومت اپنے متعلقہ بلز سے دستبردار ہو گئی۔کمیٹی نے اجلاس میں سیکرٹری خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کی عدم شرکت کا نوٹس لیتے ہوئے دونوں کے خلاف ارکان نے انتہائی سخت ریمارکس دیئے ہیں۔چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ افسران کا یہ رویہ درست نہیں ہے ان سے پوچھ کر اجلاس کر لیا کریں چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ کی مشاورت سے شیڈول طے کیا گیا مگر وہ تب بھی نہ آئے۔ ارکان نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ اجلاس میں نہیں آتے تو ان کا نام ایجنڈے سے خارج کر دیں۔ برجیس طاہر نے کہا کہ افسران نے تماشا لگا ہوا ہے وزارت خزانہ کے لئے بجٹ پر ہمیں اتنا جھوٹ بولنا پڑتا ہے جبکہ عوام تنگ ہیں۔احتجاجاً واٹ آؤٹ کی نوبت آ سکتی ہے۔افسران کا اجلاس میں نہ آنا معمول بنتا جارہا ہے ۔ طارق حسین نے کہا کہ ارکارن دوردراز سے اجلاس کے لیے آئے ہیں افسران سے اجلاس کا خرچہ وصول کیا جائے ۔گورنر سٹیٹ بینک نے تو اطلاع بھی نہیں دی۔ برجیس طاہر نے تجویز دی ان کے سمن جاری کریں ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کیوں آئے ہیں ہم نے تو ان کو نہیں بلایا۔گورنر کی جانب سے کمیٹی کو بے وقوف بنانے کے لیے نمائندہ کو بھیج دیا جاتا ہے افسران کو تربیت کی ضرورت ہے سرکاری ایجنڈا نہ لیں جو نہ آئے اس کا نام نوٹس سے خارج کردیں ۔معیشت پر ڈاکہ روکنے کے لیے گورنر سٹیٹ بینک چوکیدار ہیں مگر انہیں جواب دہی کا احساس تک نہیں ہے،ملک کا بیڑہ غرق ہورہا ہے آٹے کی قیمت سوروپے سے تجاوز کرگئی عوام ہم سے پوچھتے ہیں سیاسی استحکام کی بات کی جاتی بتایا جائے معاشی ٹیم کیا کر رہی ہے ۔ افسران کسی کے کنٹرول میں ہیں ان تمام کی تقرریاں پارلیمان کے ذریعے ہونی چاہیں ۔ اجلاس منعقد نہ کریں ۔ وفاقی وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے ڈیل ہونے پر ڈالر180روپے ہوجائے گا ۔مولانا صلاح الدین نے بھی اجلاس کا خرچہ متعلقہ افسران سے وصول کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا ارکان نے کہا بھارت میں ڈالر80 روپے بنگلہ دیش میں 90روپے یہاں تک کہ افغانستان نے بھی ڈالر کی قیمت کو قابو کرلیا یہاں ہرروز اڑان بھر رہا ہے ۔ قرضہ کیسے اتاریں گے یہ کسی کو نہیں بتایا جارہا ہے اس دوران ن لیگ کے رہنما برجیس طاہر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے ۔ وزیر مملکت خزانہ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر پاکستان کو ساڑھے چھ ارب ڈالر ملیں گے دسمبر فروری مارچ میں تین جائزہ اجلاس مزید ہونگے ۔طارق حسین نے کہا کہ وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے ڈیل پر ڈالر 180 روپے پر آ جائے گا جبکہ ملک میں ڈالر مل نہیں رہا ہے درآمدی اشیاء کی ایل سی نہیں کھل رہی ہیں افریقہ کا بھی تجارتی خسارہ ہم سے کم ہے ۔ وزیر مملکت خزانہ نے کہا کہ سابقہ حکومت آئی ایم ایف سے وعدہ کے حوالے سے الٹی سمت میں چلی گئی ۔تیل بجلی پر سبسڈیز کا سلسلہ جاری رہا ۔آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے سوا پاکستان کے پاس کوئی چارہ کار نہ تھا ۔توانائی کا شعبہ بوجھ بن کر رہ گیا ہے۔ سابقہ حکومت نے دھوکہ دہی کی تھی وسائل نہیں تھے اور سبسڈیز دی جا رہی تھی۔ آئی ایم ایف سے ڈیل نہ کرتے تو خدانخواستہ ایٹمی ملک غلط جگہ پر چلا جاتا۔انہوں نے کہا کہ مستقل معاشی پالیسی کی ضرورت ہے ۔میثاق معیشت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ملک میں ڈالر لانے کے لیے حکومت نے امدادی اداروں سے پاکستان میں منصوبوں پر کام تیز کرنے کے لیے ان سے رابطوں اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی د ستاویزات تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے پارلیمینٹ میں یہ دستاویزات پپیش کی جائیں گی ۔سیلاب کی تباہی کے باعث پی ایس ڈی پی پر بھی نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ منی بجٹ نہیں آئے گا۔ نقصانات کا مکمل ڈیٹا آنے پر تعمیر نو شروع ہو سکے گی۔ تیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ اس صورتحال سے آئی ایم ایف اور دیگر امدادی اداروں کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔این ڈی ایم اے کے حکام نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں سوا چار سو فیصد،سندھ میں 464 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔15 ستمبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق متاثر علاقوں میں اب تک 1508 اموات 12758 افراد زخمی ہوئے ہیں 12418 کلو میٹر سڑکیں ،18 لاکھ گھر 390 پلوں کو نقصان ہوا۔ 9 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے۔ مجموعی طور پر موسمیاتی تبدیلی 81 اضلاع اور 6615 یونینز کونسلیں متاثر ہوئی ہیں۔بلوچستان میں 25 ستمبر کو جبکہ گلگت بلستتان میں 20 ستمبر تک نقصانات کے حوالے سے سروے مکمل ہو جائے گا۔اقوام متحدہ نے 160 ملین ڈالر کی فلیشن امداد کی اپیل کی۔ 150 ملین ڈالر کے اعلانات ہو چکے ہیں۔ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے بعض مواقع پر سیاسی بے یقینی کی وجہ سے بھی ڈالر کی قیمت بڑھی۔ڈالر کی قیمت کا تعین حکومت یا کوئی ادارہ نہیں بلکہ مارکیٹ طے کرتی ہے۔
#/S