- میں نے یہ سنا کہ وزیر اعظم نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا توآئین کے مطابق تو نہیں کرنا چاہیئے،فی الحال جو آئین کہتا ہے اس پر چلیں
- سیاستدان آئین میں تبدیلی اور مشورے کرتے ہیں،اتفاق رائے ہمیشہ اچھی چیز ہے، کسی سے اس کا اختیار نہیں لیا جاسکتا
- آڈیو لیکس کی مذمت کرتا ہوں، ایسا نہیں ہونا چاہیے ، سابق صدر فاروق لغاری کو کچھ ریکارڈڈ چیزیں سنائی گئیں اور انہوں نے حکومت گرادی
- وزیر اعظم شہباز شریف سے آڈیو لیکس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی، ملکی معاملات ،سیلاب پر، ان کے غیر ملکی دورے، ملکی معاشی حالات پر تبادلہ خیال ہوا
- ایک ہی دفعہ حلف برداری کے موقع پر میں بیمار ہوا ، تمام حلف برداریوں کی تقریب میں وزیر اعظم سے ملاقات ہوتی رہی، تقسیم ختم کرکے قریب بھی آسکتے ہیں
- وہ آئینی طورپر ملک کے صدر ہیں اور کوشش کرسکتے ہیں وفاق کے معاملات کویکجہتی کی طرف لے کر جائیں ، لوگوں کی اپنی اناء پر ملکی معاملات کو قربان نہیں ہونا چاہیئے
- حکومت ، فوج، عدلیہ سمیت سب اداروں کو ایک پیج پر ہونا چاہیئے، اگر سویلین حکومت کی فوج یا عدلیہ کے حوالہ سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوتومیری کوشش ہونی چاہیئے کہ اس غلط فہمی کو دور کیا جائے،،صدر مملکت کا انٹرویو
اسلام آباد (ویب نیوز)
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کس کو کرنی چاہیئے یہ آئین طے کرتا ہے اور سیاستدان آئین میں تبدیلی کرتے ہیں اورسیاستدان مشورے کرتے ہیں، میں نے یہ سنا کہ وزیر اعظم نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا توآئین کے مطابق تو نہیں کرنا چاہیئے، میں تو کہتا ہوں کہ اتفاق رائے کے لئے مشورہ کر لینا چاہیئے ، فی الحال جو آئین کہتا ہے اس پر چلیں اور مشورہ بھی کرلیں۔ اگر وزیر اعظم اپنے بھائی سے مشورہ کرسکتے ہیں تو وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے عمران خان سے بھی مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ اتفاق رائے ہمیشہ اچھی چیز ہے، مشاورت ہمیشہ اچھی چیز ہے، اگر تقسیم ہے تو مشاورت اس تقسیم کو کم بھی کرسکتی ہے۔ اگر ایک چیز پر قومی اتفاق رائے ہے تو پھر کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر اتفاق رائے نہیں ہے تو پھر آدمی مشورہ کرلیتا ہے، یہ توزندگی کا طریقہ کار ہونا چاہیئے۔کسی سے اس کا اختیار نہیں لیا جاسکتا۔ آرمی چیف کی سلیکشن وزیر اعظم کا اختیار ہے اور میں نے تو کہا ہے اگر وہ سلیکشن میں مشورہ کر لیں تو اچھا ہے، آئین کے سامنے میرے الفاظ مٹی میں ڈالیں، میرے الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان خیالات کااظہار صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ میں آڈیو لیکس کی مذمت کرتا ہوں، ایسا نہیں ہونا چاہیئے تاہم میں اس معاملہ کی پیچیدگیوں پر بات کرنے کو تیارنہیں۔ میں نے زندگی بھر یہ کیا ہے کہ اگر کوئی دوست بھی میرے پاس کوئی ٹیپ لایا کہ میں نے کسی کی بات ریکارڈ کی ہے تو میں کہتا ہوں میں نے سننی نہیں، یہ غیبت ہے اور یہ بھائی کا گوشت کھانا غیبت ہے۔ ایک شخص کی بات دوسرے تک پہنچانا غیبت میں آتا ہے۔ غیبت پر مزید غیبت کر کے میں یہ گناہ نہیں کرنا چاہتا، جو کچھ ہوا ہے اس کی میں مذمت کرتا ہو ں اور خاص طور پر حکومتی عمارتوں کے اندر یہ ہوجائے تویہ مزید قابل مذمت ہے۔ پچھلے ایک ہزار سال سے یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ لوگ اپنے دشمنوں کے معاملہ میں یا جن کے ساتھ اپنا مقابلہ سمجھتے تھے ان کے ساتھ یہی کرتے تھے کہ جاسوس لگاتے تھے باتیں سنتے تھے، باتیں چلاتے تھے، سازشیں ساری اس بنیاد پر ہوتی تھیں ، محلاتی سازشتیں اسی بنیاد پر ہوتی تھیں کہ کون جانشین بنے گااس کی افواہیں اُدھر سنائی جاتی تھیں ، اُس کو یہ کہتے تھا ، یہ ساری سیاق وسباق سے ہٹ کر گفتگو تھی اور انسان کی فطر ت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف ٹول بدل گئے۔دنیا کی تمام ریاستوں میں یہ ہوتا رہا ہے۔ سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری کو مبینہ طور پر کچھ ریکارڈڈ چیزیں سنائی گئیں اور انہوں نے حکومت گرادی۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سے آڈیو لیکس کے معاملہ پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی، وزیر اعظم سے ملکی معاملات پر گفتگو ہوئی، صدر اور وزیر اعظم کاایک تعلق ہے ،وزیر اعظم سے سیلاب پر، ان کے غیر ملکی دورے، ملکی معاشی حالات پرگفتگو ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی دفعہ حلف برداری کے موقع پر میں بیمار ہوااور میںبیماریوں کوکنٹرول نہیں کرسکتا، تمام حلف برداریوں کی تقریب میں وزیر اعظم سے ملاقات ہوتی رہی۔ تقسیم ختم کرکے قریب بھی آسکتے ہیں، پاکستان کے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ قوم یکجہتی کی طرف جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ وہ توآئینی طورپر ملک کے صدر ہیں اور وہ کوشش کرسکتے ہیں کہ وفاق کے معاملات کویکجہتی کی طرف لے کر جائیں ، میری کوشش جاری ہے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ لوگوں کی اپنی اناء پر ملکی معاملات کو قربان نہیں ہونا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ، فوج، عدلیہ سمیت سب اداروں کو ایک پیج پر ہونا چاہیئے، اگر سویلین حکومت کی فوج یا عدلیہ کے حوالہ سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوتومیری کوشش ہونی چاہیئے کہ اس غلط فہمی کو دور کیا جائے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ میں بھی انسان ہوں اور کبھی میری کچھ رائے بن جاتی ہے اور کبھی کچھ، یہ جو بیچ میں ٹیلی وژن نے کہنا شروع کیا کہ 20سال پہلے جو تم نے کہہ دیا اس پر قائم رہو، میں قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ حالات روز تبدیل ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا سیاسی گفتگو بھی کرے لیکن جو معاشرے کی تکالیف ہیںاس پر بھی میڈیا بات کرے۔صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق ایک سال بعد ملک میں عام انتخابات ہوں گے، لوگ کہہ رہے ہیں پہلے ہو جائیں، فرق تین، چار مہینے کا رہ گیا ہے، کیا یہ اتنا بڑا ایشو ہے کہ سیاستدان بیٹھ کراس کو حل نہیں کرسکتے، میں یہ نہیں کہتا کہ کب انتخابات کروائے جائیں تاہم میری کوشش ان کو قریب لانا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ الیکشن کروانے ہی نہیں ہیں۔ میری کوششیں جاری ہیں اور میں اس حوالہ سے پُر امید ہوں۔