فوری ریلیف کے بغیر کم از کم 54ممالک غربت کی سطح میں اضافہ دیکھیں گے اور موسمیاتی موافقت اور تخفیف میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے
غریب، مقروض ممالک کو بدلتے ہوئے معاشی دبا ئوکا سامنا ہے،بہت سے لوگوں کو اپنے قرض کی ادائیگی یا نئی مالی اعانت تک رسائی ناممکن نظر آتی ہے،یو این ڈی پی
نیویارک (ویب نیوز)
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ عالمی بحرانوں نے دنیا کی نصف سے زائد غریب آبادی پر مشتمل پاکستان سمیت54 ممالک کو قرضوں میں ریلیف کی اشد ضرورت میں مبتلا کردیا ہے۔ ایک نئی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ درجنوں ترقی پذیر ممالک قرضوں کے تیزی سے گہرے ہوتے بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے غیر فعال ہونے کے خطرات سنگین ہیں۔یو این ڈی پی نے کہا کہ فوری ریلیف کے بغیر کم از کم 54ممالک غربت کی سطح میں اضافہ دیکھیں گے اور موسمیاتی موافقت اور تخفیف میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ادارے کا کہنا تھا کہ یہ تشویشناک ہے کہ متاثرہ ممالک دنیا میں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔مذکورہ رپورٹ میں فوری کارروائی کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی جو واشنگٹن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک اور جی 20کے وزرائے خزانہ کے اجلاسوں سے قبل شائع ہوئی۔یو این ڈی پی کے سربراہ ایچم اسٹینر نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لیکن بار بار انتباہ کے باوجود اب تک بہت کم کام ہوا ہے اور خطرات بڑھ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بحران شدت اختیار کر رہا ہے اور دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں ایک مضبوط ترقیاتی بحران پھیلنے کا خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ غریب، مقروض ممالک کو بدلتے ہوئے معاشی دبا ئوکا سامنا ہے اور بہت سے لوگوں کو اپنے قرض کی ادائیگی یا نئی مالی اعانت تک رسائی ناممکن نظر آتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا کہ کووڈ 19وبائی بیماری کے متاثر کرنے سے بہت پہلے سے متاثرہ ممالک میں قرضوں سے متعلق پریشانیاں پیدا ہو رہی تھیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ دہائی میں تیزی سے بڑھتے ہوئے قرضوں کو مسلسل عدم توجہ کا شکار رکھا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 54 میں سے 46ممالک نے 2020میں مجموعی طور پر 782ارب ڈالر کا عوامی قرضہ لیا، اس رقم میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ صرف ارجنٹائن، یوکرین اور وینزویلا کا ہے۔صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے، ترقی پذیر ممالک میں سے 19اب موثر طریقے سے قرض دینے والی منڈی سے باہر ہو چکے ہیں، جن کی تعداد سال کے آغا میں 10تھی۔یو این ڈی پی کے چیف اکانومسٹ جارج گرے مولینا نے صحافیوں کو بتایا کہ تمام ترقی پذیر معیشتوں میں سے ایک تہائی نے اس دوران اپنے قرضوں کو کافی خطرے، انتہائی قیاس آرائی یا ڈیفالٹ کے طور پر دیکھا ہے۔گرے مولینا نے کہا کہ نجی قرض دہندگان اب تک ضروری تنظیم نو کے ساتھ آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ مارکیٹ کے موجودہ حالات قرضوں کے سودے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں کیونکہ نجی قرض دہندگان اپنے ہولڈنگز کی قدر میں 60فیصد تک گرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔گرے مولینا نے تسلیم کیا کہ لیکن رضامند قرض دہندگان درحقیقت قرض سے نجات کے انتہائی ضروری معاہدے کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو چیز مسنگ ہے وہ بڑے قرض دہندگان کی حکومتوں کی جانب سے معاہدہ کرنے کے لیے مالی یقین دہانیاں ہیں۔یو این ڈی پی عہدیدار نے اس امید کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی برادری آخرکار اس بات کو تسلیم کر لے گی کہ یہ کارروائی سب کے مشترکہ مفاد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ روک تھام علاج سے بہتر ہے اور یقینی طور پر عالمی کساد بازاری سے نمٹنے کے مقابلے میں بہت سستا ہے۔