66سالہ الطاف احمد شاہ2017 سے تہاڑ جیل میں قید تھے، کینسر کی تشخیص ہوئی تھی
نئی دہلی (ویب نیوز)
قائد تحریک آزادی کشمیر سید علی گیلانی مرحوم کے داماد اورکل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما الطاف احمد شاہ نئی دہلی میں بھارتی حراست کے دوران شہید ہو گئے ہیں۔ 66سالہ الطاف احمد شاہ پیر کی شب نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ الطاف احمد شاہ کو بھارتی تحقیقاتی ایجنسی این آئی ائے نے 2017میں سری نگر سے گرفتار کر کے نئی دہلی کے تہاڑ جیل منتقل کر دیا تھا۔ گزشتہ پانچ سال سے وہ نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں بند تھے۔ دوران قید الطا ف احمد شاہ کو گردوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جو آخری سٹیج پر تھا۔ حریت رہنما الطاف شاہ تہاڑ جیل میں متعدد بیماریوں میں مبتلا تھے اور بھارتی حکام کی جانب سے انہیں جیل میں علاج معالجے سمیت تمام بنیادی سہولتیں فراہم نہ کرنے کے باعث ان کی صحت خراب ہوگئی تھی۔نئی دہلی ہائی کورٹ نے چھے اکتوبر کوالطاف شاہ کی درخواست ضمانت نظر انداز کرتے ہوئے انہیں علاج کے لیے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ الطاف احمد کی بیٹی اور کشمیری خاتون صحافی رووا شاہ نے ایک ٹویٹ میں ان کی شہادت کی تصدیق کی ہے ۔ 30ستمبر کو ان کی بیٹی رووا شاہ نے ایک ٹویٹ میں بتایا تھاکہ انہیں گردوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی ہے، جو ان کے اہم اعضا میں پھیل چکا ہے۔رووا شاہ نے اپنے خاندان کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت حکام سے درخواست کی تھی کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی ضمانت کی درخواست پر غور کریں تاکہ ان کا علاج کروایا جاسکے ۔ تاہم سفاک مودی حکومت نے انہیں رہا نہیں کیا۔الطاف احمد شاہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی اکائی تحریک حریت کے ایک اہم رہنما تھے اور انہوں نے شہید سید علی گیلانی کے ساتھ کام کیا۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے بھی ایک بیان میں بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ الطاف شاہ کو انسانی بنیادوں پر ضمانت پر رہا کیا جائے اور ان کے خاندان کو ان کی دیکھ بھال کرنے کی اجازت دی جائے۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ کشمیری سیاسی قیدی جن میں حریت رہنما اور کارکنان 2017 سے اور اس سے قبل بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، کو طبی سہولیات اور صحت بخش خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوچکے ہیں ۔الطاف احمد شاہ پہلے کشمیری سیاسی قیدی نہیں ہیں جن کی بھارتی قید کے دوران موت ہوئی ہو۔4 اکتوبر کو روا شاہ نے الطاف شاہ کو کاغذ اور قلم مہیا کرنے سے متعلق اجازت نامہ لینے کے لیے تہاڑ جیل جاتے ہوئے بی بی سی کو بتایا تھاکہ ایک شخص مر رہا ہے، اپنوں سے کچھ کہنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے کاغذ قلم کی ضرورت تھی مگر حکام کہتے ہیں کہ اجازت نامہ لا۔ ہم نے سب تسلیم کر لیا تھا لیکن انسانی بنیادوں پر انھیں آخری سانسیں اپنے گھر میں اپنوں کے ساتھ لینے کا بھی حق نہیں ہے کیا؟ آخری بات لکھ کر بتانے کا بھی حق نہیں کیا؟ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب میں تہاڑ جیل جا رہی ہوں، قلم اور کاغذ کی اجازت کے لیے۔ ڈر یہ ہے کہ اتنی دیر میں وہ کہیں دم نہ توڑ جائیں، میں اپیلیں کر کر کے تھک گئی ہوں۔روا شاہ،نے اپنے والد کی بہتر طبی نگہداشت اور ان کی ضمانت کے لیے انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام ایک خط بھی لکھا تھا جس میں تمام تر تفصیلات بیان کرنے کے بعد وہ امیت شاہ سے مخاطب ہو کر لکھتی ہیں کہ مجھے امید ہے کہ آپ ایک ایسی بیٹی کی یہ درخواست قبول کریں گے جس کا باپ بسترِ مرگ پر ہے۔یاد رہے اس سے قبل 92 سالہ سید علی گیلانی گزشتہ برس یکم ستمبر کو اپنی رہائش گاہ پر ایک دہائی سے زائد عرصے تک نظر بندی کے دوران انتقال کر گئے تھے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما، 77سالہ محمد اشرف صحرائی جو سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی تھے، بھی گزشتہ سال 5مئی کو جموں کی ایک جیل میں انتقال کر گئے تھے۔ محمد اشرف صحرائی کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل میں قید تھے جس کے تحت حکام کسی شخص کو عدالت میں پیش کئے بغیر دو سال تک حراست میں رکھاجاسکتا ہے ۔اسی طرح جماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیر کے سابق رکن 65سالہ غلام محمد بٹ بھی دسمبر2019 کو بھارتی ریاست اترپردیش کی ایک جیل میں دوران حراست شہید ہوگئے تھے۔