اوسلو (ویب نیوز)
اوسلو میں موجود گروپ ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے تین ہفتوں سے زائد عرصے پر محیط ملک گیر احتجاج کے دوران ایران فورسیز کے کریک ڈان میں کم از کم 108 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران ہیومن رائٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز نے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان میں علیحدہ جھڑپوں کے دوران کم از کم مزید 93 افراد کو ہلاک کر دیا۔ایران کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ایران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں غیر موزوں لباس کے باعث زیر حراست موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اس کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے جب کہ اس دوران مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 185 ہو چکی ہے۔زاہدان میں مظاہرے 30 ستمبر کو اس وقت پرتشدد رخ اختیار کرگئے تھے جب کہ خطے میں پولیس کمانڈر کی جانب سے نوجوان لڑکی کو مبینہ ریپ کا نشانہ بنائے جانے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے مہسا امینی کے آبائی صوبے کردستان کے دارالحکومت سنندج میں کریک ڈاون کی خدشات کا اظہار کیا۔ایران ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر محمود امیری-مغدم نے ایک بیان میں کہا کہ عالمی برادری کو فوری ردعمل دے کر کردستان میں مزید ہلاکتوں کو روکنا چاہیے۔ایران ہیومن رائٹس نے اشارہ دیا کہ کردستان میں ظلم و بربریت سے متعلق تحقیقات میں انٹرنیٹ کی پابندیوں کی وجہ سے رکاوٹوں کو سامنا کرنا پڑا، گروپ نے مغربی صوبے میں مظاہرین کے خلاف آنے والے دنوں میں خونی کریک ڈاون سے بھی خبردار کیا۔ایران ہیومن رائٹس نے کہا کہ صوبہ کردستان کے شہر سنندج میں گزشتہ 3 روز کے دوران بڑے احتجاجی مظاہرہ اور خونریز کریک ڈاون دیکھنے میں آیا۔آئی ایچ آر نے مزید کہا کہ صوبے سے متعلق فراہم کیے گئے موجودہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں اس عرصے میں مرنے والے افراد کو شامل نہیں کیا گیا۔اوسلو بیسڈ گروپ نے کہا کہ وہ اب تک صوبہ مازندران میں 28، کردستان میں 14، گیلان اور مغربی آذربائیجان دونوں میں 12 اور صوبہ تہران میں 11 اموات ریکارڈ کرچکا ہے۔انسانی حقوق گروپ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ ہفتے سڑکوں اور اسکولوں میں احتجاج کرنے والے بہت سے بچوں کو بھی گرفتار کیا تھا۔محمود امیری-مغدم نے کہا کہ بچوں کو احتجاج کرنے کا قانونی حق حاصل ہے، اقوام متحدہ پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پر دباو ڈال کر ایران میں بچوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ایران ہیومن رائٹس نے کہا کہ اس کی جانب سے فراہم کیے گئے ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں اتوار کے روز شمالی ایران میں رشت سینٹرل جیل کے اندر مظاہروں کے دوران مرنے والے 6 افراد بھی شامل نہیں ہیں جب کہ گروپ تاحال اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ایران ہیومن رائٹس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے جنوب مغرب میں واقع اسالویہ پیٹرو کیمیکل پلانٹ، مغربی ایران میں واقع آبادان اور جنوب میں واقع بوشہر کے ملازمین اور ورکز نے بھی ہونے والے ملک گیر ہڑتالوں اور مظاہروں میں شرکت کی۔دوسری جانب، عدلیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مہسا امینی کی گزشتہ ماہ پولیس حراست میں موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے ایران نے 2 صوبوں میں 100 سے زائد افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی ہے۔عدلیہ کی میزان آن لائن نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ تہران میں 60 جب کہ جنوبی صوبے ہرمزگان میں ہونے والے حالیہ فسادات کے الزامات پر 65 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی۔