• فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھنے والے طلبا کے خلاف امریکہ بھر میں کریک ڈاون شروع
     ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی طلبہ یا حالیہ گریجویٹس کے ویزے منسوخ کر دیے گئے
  •  ویزہ منسوخی کے بعد بھی امریکہ نہ چھوڑنے والے طلبا کو گرفتار کرنے کی امریکی دھمکی
    ہندوستان، پاکستان ، چین، جنوبی کوریا، نیپال اور بنگلہ دیش کے طلبا بھی متاثر ہوئے

 واشنگٹن( ویب  نیوز)

فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھنے والے طلبا وطالبات  کے خلاف امریکہ بھر میں  کریک ڈاون شروع ہو گیا ہے امریکا کی حکومت نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک میں زیرتعلیم بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے۔ امریکی حکومت نے ایک ماہ سے کم دورانیے میں لگ بھگ 160 کالجز اور یونیورسٹیز کے کم از کم 1024 طلبہ کے ویزوں کی قانونی حیثیت ختم کر دی ہے۔ بی بی سی  فلسطینیوں کے حق میں بات کرنے والے طلبا کے خلاف  کریک ڈان کہیں زیادہ وسیع دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے ان اقدام کا احاطہ کرنے والی ایک آن لائن نیوز سائٹ انسائیڈ ہائر ایڈ کے ایک ٹریکر کے مطابق امریکہ بھر کے کالجوں میں ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی طلبہ یا حالیہ گریجویٹس کے ویزے یا تو منسوخ ہو چکے ہیں یا ان کی قانونی حیثیت بدل چکی ہے۔کالجز اور یونیورسٹیوں کو ادارہ جاتی سطح پر بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رواں ہفتے جب ہارورڈ یونیورسٹی نے مطالبات کی ایک فہرست سے اتفاق کرنے سے انکار کر دیا تو وہائٹ ہاس کی سام دشمنی کے خلاف ٹاسک فورس نے ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے دو بلین ڈالر سے زائد کی فنڈنگ کو منجمد کر دیا۔ یونیورسٹی کا کہنا تھا کہ اس فہرست سے اتفاق کرنا ‘اپنی آزادی سے دستبردار ہو جانا’ ہے۔اس اقدام سے متاثر ہونے والے بعض طلبہ نے ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی میں قانونی درخواستیں بھی دائر کی ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ ایک تو یہ اقدام ضابطے کے مطابق نہیں کیا گیا، دوسرا یہ کہ ان کے امریکہ  میں قیام کے حق کو ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا امیگریشن اور طلبہ کے ایکٹوزم کے خلاف کریک ڈاون ہاورڈ اور سٹینڈفورڈ جیسی پرائیوٹ یونیورسٹیوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ یونیورسٹی آف میری لینڈ اور اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی جیسی سرکاری درس گاہیں بھی اس کی زد میں آئیں۔رواں ہفتے  کے اوائل میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) نے بتایا کہ ان کے 9 انٹرنیشنل طلبہ اور ریسرچرز کے ویزے اور امیگریشن اسٹیٹس بغیر کسی پیشگی وارننگ کے منسوخ کر دیے گئے۔دوسری جانب حکومت نے طلبہ کے ایکٹوزم کو روکنے سے متعلق اپنے احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت  میں یونیورسٹیوں کی فنڈنگ روکنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ہاورڈ یونیورسٹی کے 2 ارب 30 کروڑ کے فنڈز پہلے ہی سے منجمد ہیں لیکن یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے کولمبیا یونیورسٹی کے ایکٹوسٹ طالب علم محمود خلیل کو حراست میں لیے جانے کے بعد وفاقی حکومت نے کہا تھا کہ اسے ان تمام غیرملکی امریکی شہریوں کو ڈی پورٹ کرنے کا حق ہے کہ جو یہود دشمن ہیں اور فلسطینوں کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں۔

ویزہ منسوخی کے بعد بھی امریکہ نہ چھوڑنے والے طلبا کو گرفتار کرنے کی امریکی دھمکی
ہندوستان، پاکستان ، چین، جنوبی کوریا، نیپال اور بنگلہ دیش کے طلبا بھی متاثر ہوئے
امریکی انتظامیہ نے سینکڑوں بین الاقوامی طلبا  کو خبردار کیا ہے کہ  ویزہ منسوخی کے بعد بھی انہوں نے امریکہ نہ چھوڑا تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا طلبا کو ای میل کے ذریعہ انتباہ کیا گیاہے کہ اگر انہوں نے جلد امریکہ نہ  چھوڑا تو انہیں حراست میں لیا جا سکتا ہے یا پھر انہیں ان کے آبائی وطن کے بجائے کسی دیگر ملک میں ڈپورٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے طلبا ویزا یافتگان کی شناخت کرنے اور ان کی جانچ کرنے کے لیے کیچ اینڈ ریووک پروگرام کا اعلان کیا تھا جس میں یہودی مخالف یا فلسطینیوں اور حماس کی حمایت کے شواہد کے لیے ان کے سوشل میڈیا پر نگرانی رکھنا بھی شامل تھا۔ اس کارروائی کے بعد بہت سارے بین الاقوامی طلبا کا ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے اس میں سب سے زیادہ ہندوستانی طلبا شامل ہیں۔امریکن لائرز ایسوسی ایشن (اے آئی ایل اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق تنظیم کے ذریعہ حال ہی میں جن 327 طلبا کا ویزا منسوخ کیا گیا ہے ان میں آدھے ہندوستانی طلبا  ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جن طلبا کے ویزا منسوخ کیے گئے، ان میں زیادہ تر آپشنل پریٹیکل ٹریننگ (او پی ٹی) پر تھے یعنی وہ پڑھائی پوری کرکے امریکہ میں کام کر رہے تھے۔ اس  کارروائی سے متاثر طلبا میں سے آدھے سے زیادہ کو نہ تو کوئی الزام نامہ ملا، نہ ہی کوئی مقدمہ چلا۔ کئی معاملوں میں پولیس کے ذریعہ معمولی پوچھ تاچھ کے بعد بھی ان کے ویزا منسوخ کر دیئے گئے۔امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے کئی یونیورسٹی کے طلبا کو ای میل بھیجا گیا ہے۔ اس میں ہارورڈ، کولمبیا، ، کیلیفورنیا اور مشیگن یونیورسٹی جیسے معروف ادارے شامل ہیں۔ حالانکہ کتنی یونیورسٹیز کے کتنے طلبا کو یہ میل بھیجا گیا ہے، اس کی صحیح معلومات سامنے نہیں آئی ہے۔ ای میل میں طلبا سے کہا گیا ہے کہ ان کا ایف-1 ویزا امریکہ کے امیگریشن اینڈ نیشنلسٹی ایکٹ کی دفعہ کے تحت منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب اگر وہ امریکہ میں رہتے ہیں تو ان پر جرمانہ لگایا جا سکتا ہے، انہیں حراست میں لیا جا سکتا ہے، انہیں ڈپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ ای میل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طلبا کو ان کے آبائی ملک کے علاوہ دوسرے ملکوں کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ طلبا خود ہی امریکہ چھوڑ دیں۔ٹرمپ انتظامیہ کی دلیل تھی کہ ویزا منسوخی کے پیچھے وجوہ ہوتے ہیں، جیسے کسی سیاسی احتجاجی مظاہرہ میں حصہ لینا۔ حالانکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن معاملوں کی جانچ کی گئی ہے ان میں صرف دو طلبا کے خلاف ایسا کوئی سیاسی جڑاو ملا۔
اے آئی ایل اے کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 86 فیصد طلبا کا کسی نہ کسی طرح سے پولیس سے رابطہ ہوا تھا۔ لیکن ان میں سے 33 فیصد معاملوں کو بعد میں خارج کر دیا گیا۔ ان میں سے دو طلبا خود گھریلو تشدد کے متاثر تھے، جبکہ دیگر پر تیز گاڑی چلانے یا پارکنگ ضابطوں کی خلاف ورزی جیسے معمولی الزام تھے۔ 327 ویزا منسوخی معاملوں میں  ، ہندوستان، پاکستان ، چین، جنوبی کوریا، نیپال اور بنگلہ دیش کے طلبا بھی متاثر ہوئے ہیں۔