ہم قانون ڈیزائن کرکے پارلیمنٹ کو کیسے بھیج سکتے ہیں؟ کل کوئی شہری آ جائے گا 10روپے کرپشن پر بھی نیب تحقیقات کرے،جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت آج (بدھ ) تک ملتوی کر دی
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے واپس ہونے والے تمام نیب ریفرنسز کا ریکارڈ محفوظ کرنے اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہر ایک ذمے دار کا احتساب ہونا چاہیے، ریفرنسز، ریکارڈ، شواہد، معلومات اور دستاویزات سب محفوظ ہونا چاہیے،1947 سے آج تک ہم نے سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا۔ سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو(نیب)قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ تیزی سے ریفرنس واپس ہورہے ہیں، کہیں اور نہیں جارہے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ رینٹل پاور کیس سمیت بڑے مقدمات ختم کر دیے گئے، حالیہ ترامیم کے ذریعے تیسرے فریق کے مالیاتی فائدے کو نیب دسترس سے باہر کر دیا گیا۔ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب سپریم کورٹ سے جو چھپا رہا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل خواجہ حارث کی بات پر کہا کہ نیب سے پوچھیں گے کہ واپس آنے والے ریفرنس کہاں جا رہے ہیں؟ ہر ایک ذمے دار کا احتساب ہونا چاہیے، ریفرنسز، ریکارڈ، شواہد، معلومات اور دستاویزات سب محفوظ ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بھی کہا کہ ہر چیز کی فہرست مرتب کرکے محفوظ کیا جائے، سپریم کورٹ کی کارروائی اس عمل کو بیلنس کرنے کیلیے ہے لیکن بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1947 میں بھی احتساب کا قانون موجود تھا، آئیڈیا یہ ہے کہ کام درست کیا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین نیب واپس آنے والے ریفرنس کو کہیں نہ بھیجیں تو بات ختم، یہ ترامیم ایک کلاس کے تحفظ کیلیے کرنے کا کہی ہے، عدالت کے سامنے سوال ہے کہ یہ ترامیم کس کی ضرورت ہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب سپریم کورٹ سے جو چھپا رہا ہے، وہ بہت ہی اہم ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اب بھی نیب قانون کو جانچنے کے لیے کسوٹی کی کھوج میں ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم قانون ڈیزائن کرکے پارلیمنٹ کو کیسے بھیج سکتے ہیں؟ کل کوئی شہری آ جائے گا کہ دس روپے کرپشن پر بھی نیب تحقیقات کرے، یہ سلسلہ کہیں تو رکنا چاہیے، ہم پارلیمان کے امور میں کیوں اور کیسے مداخلت کر سکتے ہیں؟ نیب قانون کیا ہونا چاہیے؟ یہ سپریم کورٹ کیسے تعین کرسکتی ہے؟ آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون بدنیتی پر مشتمل ہے، ہم پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے کیسے دیں؟پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے دیتی رہی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین نیب واپس آنے والے ریفرنس کو کہیں نہ بھیجے تو بس بات ختم ہوگئی۔وکیل مخدوم علی خان نے اعتراض کیا کہ نیب سارا ریکارڈ جمع نہیں کروارہا، نیب صرف احتساب عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں جمع کروا رہا ہے، احتساب عدالتوں کے فیصلوں پر اعلی عدلیہ کے کیا فیصلے ہوئے نہیں بتایا جارہا، نیب سپریم کورٹ سے جو چھپا رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مخدوم علی خان ثابت کریں گے کہ قانون تو ہے لیکن سزا نہیں، اخبارات ،دیگر حلقوں میں یہ بات چلتی رہی ہے کہ کچھ طبقات پر نیب پراسیکوشن نہیں ہونی چاہیے، ان طبقات میں ایک طبقہ کاروباری لوگوں کا بھی ہے، 1947 سے آج تک اہم سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کی کارروائی اس عمل کو بیلنس کرنے کے لیے لیکن یہ بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج بروز بدھ تک کیلیے ملتوی کردی۔