- ججز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر پریشر آتا ہے ، اگر کوئی کہے کہ اس پر پریشر ہے تو وہ اپنے حلف پر عمل پیرا نہیں
- دنیا میں قیام پاکستان کی مثال نہیں ملتی، ملک کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا، اس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا
- مجھ سمیت سب آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قانون و آئین کے پابند ہیں، ہمیں عوام تنخواہ دیتے ہیں اور انفرادی طور پر ہمارا احتساب کرسکتے ہیں
- بھٹو کا ٹرائل کسی ملٹری کورٹ نے نہیں سول کورٹ نے کیا تھا، جس بینچ میں فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ آیا، میں اس میں جونیئر ترین اور اقلیتی فیصلے کا حصہ تھا
- ایک وزیراعظم کو نااہل کیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی، فیصلے پرتبصرہ نہیں کروں گا لیکن اس میں لکھاگیا آپ نے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہیں بتائی
- ایگزیکٹو میں جنرل ایوب، جنرل ضیا ء اور جنرل مشرف کو بلیک لسٹ میں اور پاکستان کے پہلے اور دوسرے آرمی چیف کو وائٹ لسٹ میں رکھتا ہوں
- ایوب خان نے پاکستان کے آرمی چیف سے پلاٹ مانگا تھا، بعد میں اس آرمی چیف کو ہٹا دیا گیا یوں پلاٹوں کی سیاست شروع ہوئی
- پاکستان کو سب سے زیادہ عوام کی منتخب قیادت کے ذریعے حکمرانی کی ضرورت ہے، عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب
لاہور (ویب نیوز)
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ پاکستان سے جمہوریت کو نکالنا اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا اور وطن دشمنی ہے، سب کو آئین کا احترام کرنا چاہیے اورفوجی ادارے کی بجائے آئین توڑنے والے جرنیل کا نام لے کر مذمت کریں، ججز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر پریشر آتا ہے ، اگر کوئی کہے کہ اس پر پریشر ہے تو وہ اپنے حلف پر عمل پیرا نہیں، پاکستان کو عدلیہ اور بطور ایگزیکٹو حصہ فوج کی ضرورت ہے،پاکستان کو سب سے زیادہ عوام کی منتخب قیادت کے ذریعے حکمرانی کی ضرورت ہے۔لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ بھٹو کا ٹرائل کسی ملٹری کورٹ نے نہیں سول کورٹ نے کیا تھا، جس بینچ میں فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ آیا، میں اس کا حصہ تھا، میں جونیئر ترین جج تھا اور اقلیتی فیصلے کا حصہ تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ دنیا میں قیام پاکستان کی مثال نہیں ملتی، پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا، اس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا، جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیورو کریٹ غلام محمد نے کیا، مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کوچیلنج کیا، جمہوریت پر تیسرا حملہ ضیا الحق نے کیا تھا ، آئین پھاڑدیاگیا مگر اس کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیاگیا، چوتھی بار مشرف نے آئین کو توڑا، سپریم کورٹ نے ریاست کے تنخواہ دار ملازم مشرف کو آئین کی ترمیم کا اختیاربھی دیدیاتھا، ایک تنخواہ دار کو اختیار دینے والے ججز خود بھی تنخواہ دار ملازم تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم لکھی ہوئی ہے، اس میں سے ایک ادارہ عدلیہ بھی ہے،قانون ساز قانون بناتے ہیں، انتظامیہ عمل درآمد کرتی ہے اورعدلیہ حفاظت کرتی ہے۔ پاکستان کو عدلیہ اور ایگزیکٹوکی ضرورت ہے، پاکستان کو بطور ایگزیکٹو حصہ فوج کی ضرورت ہے، پاکستان کو سب سے زیادہ عوام کی منتخب قیادت کے ذریعے حکمرانی کی ضرورت ہے، پاکستان سے جمہوریت کو نکالنا اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا اور وطن دشمنی ہے، سب کو آئین کا احترام کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پاکستان کو اداروں کی ضرورت ہے،ا داروں میں اچھے اور بریت دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، فرد کے کردارپر بات کریں ،ادارے پر تنقید نہ کریں، آئین توڑنے والے جرنیل کا نام لے کر مذمت کریں نہ کہ فوجی ادارے کی، مجھ سمیت سب آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قانون و آئین کے پابند ہیں، ہمیں عوام تنخواہ دیتے ہیں اور انفرادی طور پر ہمارا احتساب کرسکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ ایک وزیراعظم کو نااہل کیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی، میں فیصلے پرتبصرہ نہیں کروں گا لیکن فیصلے میں لکھاگیاکہ آپ نے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہیں بتائی، فیصلے میں لکھا کہ آپ نے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہ بتا کر سچ نہیں بولا اس لیے آپ اچھے مسلمان نہیں، پھرجے آئی ٹی بنا دی گئی، جے آئی ٹی کا لفظ پہلے نہیں سنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو میں جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو بلیک لسٹ میں رکھتا ہوں ، میں پاکستان کے پہلے اور دوسرے آرمی چیف کو وائٹ لسٹ میں رکھتا ہوں ، ایوب خان نے پاکستان کے آرمی چیف سے پلاٹ مانگا تھا، بعد میں اس آرمی چیف کو ہٹا دیا گیا یوں پلاٹوں کی سیاست شروع ہوئی، پاکستان میں پلاٹوں کی سیاست بہت مشہور ہے ۔