• یہ نہیں ہو سکتا رات کی خاموشی میں ہمیں بند کمروں میں ملیں، غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں اور دن کی روشنی میں غدار کہیں، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم
  • ارشد شریف کو سکیورٹی تھریٹ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی خصوصی ہدایت پر جاری کیا گیا، جس کا مقصد ارشد شریف کو باہر جانے پر مجبور کرنا تھا، لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار
  • مارچ میں آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیش کش کی گئی، جسے جنرل باجوہ نے ٹھکرا دیا، الزامات اس لئے ہیں کہ غیر آئینی کام کرنے سے انکار کیا ، ڈی جی آئی ایس آئی
  • اتنی روانی سے جھوٹ بولاجائے کہ فتنہ فساد کا خطرہ ہو تو چپ رہنا ٹھیک نہیں، میرے سینے میں بہت سی امانتیں ہیں جو سینے میں رکھ کر قبر میں چلا جائوں
  • سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے حقائق پر پہنچنا بہت ضرری ہے تاہم آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے
  • ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، جو تحقیقات ہورہی ہیں اس میں ہم مطمئن نہیں ہیں، اسی لئے حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کینیا بھیجی ہے
  • ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ آزادی اظہار رائے کرے، ہمارا محاسبہ کریں کہ مگریہ پیمانہ نہیں ہونا چاہیے کہ میں نے آپ اور آپ کی ذات کے لیے کیا کیا
  • پاکستان کو بیرونی خطرات اور عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ، خطرہ عدم استحکام سے ہے،ملک کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کہ اس کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام ہیں
  •  فوج کو کسی لانگ مارچ، دھرنے اور احتجاج سے کوئی اختلاف نہیں ،لیکن ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیں گے اور اس بارے آرمی چیف کی بات ٹھیک ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی پریس کانفرنس

راولپنڈی (ویب نیوز)

ڈائریکٹرجنرل انٹرسروسز انٹیلی جنس( آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیش کش کی گئی، آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی ان سے چھپ کر کیوں ملتے ہیں؟،جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کے حوالے سے جڑے واقعات کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے، تاکہ قوم سچ جان سکے، ہم کمزور ہو سکتے ہیں،ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہوسکتے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آپ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میں آپ سب کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، میری ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے جس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم سنے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے اور میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا ہے، لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، جس کے جوان دن رات اس وطن کی خاطر اپنے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کی دفاع کا ہراول دستہ بن کر کام کرتے ہیں۔ آپ کسی کو میر جعفر میر صادق کہیں جبکہ کوئی شواہد نہ ہوں،بالکل 100فی صد جھوٹ پر مبنی بیانیہ بنایا گیا۔ میر جعفر، میر صادق، غدار، نیوٹرل، جانور کہا گیا۔ یہ سب الزامات اس لیے ہیں کہ آرمی چیف اور ادارے نے غیر آئینی کام کرنے سے انکار کیا۔انہوں نے کہا کہ اتنی روانی سے جھوٹ بولاجائے کہ فتنہ فساد کا خطرہ ہو تو چپ رہنا ٹھیک نہیں۔ میرے سینے میں بہت سی امانتیں ہیں جو سینے میں رکھ کر قبر میں چلا جائوں۔ میرے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ لسبیلا میں ہمارے جوان اس مٹی کی خاطر شہید ہوئے لیکن ان کا بھی مذاق بنایا گیا، اس لیے میر جعفر، میر جعفر صادق اور غدار جیسے القابات کے پس منظر سے متعلق آپ کے پہلے سوال کا میں جواب دے دیتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ جھوٹے بیانیے سے لوگوں کو گمراہ کیا گیا، سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے حقائق پر پہنچنا بہت ضرری ہے تاہم آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے۔ سائفر کا بہانہ بنا کر افواج کی تضحیک کی گئی اور پاکستان کے اداروں، بالخصوص فوج کو سازش کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔ پروپیگنڈے کے باوجود آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانا حیران کن تھا۔ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ چاہتے تو اپنے آخری 6 سے 7 ماہ بہت سہولت کے ساتھ گزار سکتے تھے، وہ یہ فیصلہ نہ کرتے اور اپنے آپ کو مقدم رکھ کر آرام سے نومبر میں ریٹائر ہو کر چلے جاتے، نہ کسی نے تنقید کرنی تھی نہ اتنی غلاظت ہونی تھی، لیکن انہوں نے ملک اور ادارے کے حق میں فیصلہ دیا اور اپنی ذات کی قربانی دی۔لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آرمی چیف پر اور ان کے بچوں پر کتنی غلیظ تنقید کی جاتی رہی لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جب وہ چلے جائیں تو ان کی لیگیسی میں ایک ایسا ادارہ ہو جس کا آئینی رول ہو، اس کا ایسا رول نہ ہو جسے متنازع بنایا جاسکے، لہذا اس چیز کی خاطر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ مارچ میں آرمی چیف کو غیر معینہ مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی گئی، جسے جنرل باجوہ نے ٹھکرا دیا۔ڈی جی آئی ایس آئی نے مزید کہا کہ فیصلہ کیا تھا کہ ادارے کو متنازع رول سے ہٹا کر آئینی راستے پر لانا ہے۔ گزشتہ سال اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ہم نے خود کو آئینی حدود میں رکھنا ہے۔ گزشتہ سال اور اس سال مارچ میں ہم پر بہت پریشر آیا۔ اس نتیجے پر پہنچے کہ ادارے کا مفاد اسی میں ہے کہ سیاست سے نکل جائیں۔لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مزید کہا کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں تعریفوں کے پل کیوں باندھے تھے؟۔ آپ اپنے سپہ سالار کو آفر کررہے ہیں کہ آپ ساری زندگی اپنے عہدے پر فائز رہیں۔ آرمی چیف کو پیشکش اس وقت کی گئی جب تحریک عدم اعتماد عروج پر تھی۔ رات کی خاموشی میں ہمیں بند کمروں میں ملیں، غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں۔ رات کے اندھیرے میں ملیں، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ دن کی روشنی میں غدار کہیں۔ آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں؟انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ارشد شریف کا اسٹیبلشمنٹ اور مجھ سے بھی رابطہ تھا۔ ارشد شریف کے خاندان میں غازی اور شہید بھی ہیں۔ کینیا میں انکوائری ہورہی ہے، میں کینیا میں ہم منصب سے رابطے میں ہوں۔ جو تحقیقات ہورہی ہیں اس میں حکومت اور ہم مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کینیا بھیجی ہے۔ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ آزادی اظہار رائے کرے۔ ہمارا محاسبہ کریں کہ مگر پیمانہ یہ رکھیں کہ میں نے ملک و قوم کے لیے کیا کیا۔ یہ پیمانہ نہیں ہونا چاہیے کہ میں نے آپ اور آپ کی ذات کے لیے کیا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات اور عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے، پاکستان کو  اگر کوئی خطرہ ہے تو عدم استحکام سے ہے۔ پاکستان کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کہ اس کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو کسی لانگ مارچ، دھرنے اور احتجاج سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیں گے اور اس حوالے سے آرمی چیف کی بات ٹھیک ہے۔ ایک صحافی کی جانب سے عمران خان کو لانے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ اس پر سیر حاصل گفتگو پھر کبھی ہوسکتی ہے۔قبل ازیں ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد ارشد شریف کی وفات اور اس سے جڑے حالات و واقعات سے متعلق ہے، ارشد شریف پاکستان کی صحافت کا آئیکون تھے، وہ ایک فوجی کے بیٹے، ایک شہید کے بھائی تھے، دکھ تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ناک واقعے نے پوری قوم کو رنج و غم میں مبتلا کردیا ہے، ارشد شریف کی موت کے بعد لوگوں نے رخ فوج کی طرف موڑنا شروع کردیا، اس سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے، تمام کرداروں کو سامنے لاکر حقائق قوم کے سامنے رکھنا چاہیے، حتمی رپورٹ سامنے آنے تک کسی پر الزام تراشی کسی صورت مناسب نہ ہوگی۔لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کے حوالے سے جڑے واقعات کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے، تاکہ قوم سچ جان سکے، سائفرسے متعلق کئی حقائق منظرعام پر آگئے ہیں، پاکستانی سفیر کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا ، 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرایا گیا، بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔انہوں نے بتایا کہ آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق فائنڈنگز عوام کے سامنے رکھنا چاہتے تھے مگر اس وقت کی حکومت نے ایسا نہ کرنے دیا، ہم حقائق سامنے لانا چاہتے تھے لیکن معاملہ حکومت پر چھوڑ دیا، آرمی چیف نے 11 مارچ کو سائفرسے متعلق وزیراعظم سے ذکرکیاتھا، سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا کوئی بڑی بات نہیں۔انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے آرمی چیف پر بھی الزامات لگائے گئے، جھوٹے بیانیے کے ذریعے معاشرے میں غیر معمولی اضطراب کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے، سلمان اقبال نے چیف ایگزیکٹو عماد یوسف کو ہدایت کی کہ ارشد شریف کو جلد از جلد ملک سے باہر بھیج دیا جائے، ارشد شریف کو دبئی بھیجنے کا انتظام اے آر وائی کی جانب سے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کو سیکیورٹی تھریٹ وزیراعلی خیبرپختونخوا کی خصوصی ہدایت پر جاری کیا گیا، تھریٹ الرٹ کا مقصد ارشد شریف کو باہر جانے پر مجبور کرنا تھا، بار بار انہیں باور کرایا جاتا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے، وقار احمد اور خرم احمد کون تھے، کیا ارشد شریف انہیں جانتے تھے، کچھ لوگوں نے ارشد شریف سے لندن میں ملاقات کے دعوے کیے، کیا یہ دعوے بھی فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا حصہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں بہت سے سوالات جواب طلب ہیں، افسوس ناک واقعے کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہیں، ہم نے حکومت سے اعلی سطح تحقیقات کی درخواست کی ہے، عالمی اداروں کی ضرورت ہو تو انہیں بھی شامل کرنا چاہے، اے آر وائی نیوز نے اداروں کیخلاف رجیم چینج کا مخصوص ایجنڈا پروان چڑھایا، ارشد شریف کی موت پرجھوٹا بیانیہ بنایا گیا،لوگوں کو گمراہ کیا گیا، ارشد شریف کے قتل کے سلسلے میں سلمان اقبال کو واپس لا کر انہیں شامل تفتیش کرنا چاہیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھائے کہ ارشد شریف سے رابطہ میں رہنے والے لوگ کون تھے اور کس نے ارشد شریف کا ان سے رابطہ کروایا؟ یو اے ای میں ان کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا، کون انہیں یقین دلا رہا تھا، کس نے انہیں کینیا جانے کا کہا گیا کیوں کہ مزید 34ممالک ہیں جہاں پاکستانیوں کیلئے ویزہ فری انٹری ہے، ارشد شریف کو کس نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا؟ ان کی موت کی خبر سب سے پہلے کس نے اور کیسے دی یہ بھی دیکھنا ہوگا؟، انکوائری رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے اور جب تک رپورٹ نہیں آ جاتی تب تک الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے، لیکن ارشد شریف اور بہت سے ان جیسے صحافیوں کو رجیم چینج کا بیانیہ فیڈ کیا گیا، شہباز گل نے اے آر وائی پر فوج میں بغاوت پر اکسانے کا بیان دیا، اے آر وائی چینل نے پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف جھوٹے اورسازشی بیانیے کو فروغ دیا۔لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، ذہن سازی سے قوم میں افواج پاکستان کیخلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، نیوٹرل اور جانور جیسے الفاظ سے بات چیت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا ہے، ہمارے شہدا کا مذاق بنایا گیا، اس کے باوجود آرمی چیف نے انتہائی صبر اور تحمل سے کام لیا، سائفر کا بہانہ بنا کر فواج پاکستان کی تضحیک کی گئی، غیر آئینی کام سے انکار کرنے پر میر جعفر اور میر صادق کے القاب دیے گئے، سیاست سے باہر نکلنے کا فیصلہ آرمی چیف سمیت پورے ادارے کا تھا، پچھلے سال اور مارچ سے بہت دبا ڈالا گیا، پاکستانی اداروں کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو آئین کے خلاف تھی۔انہوں نے کہا کہ 35 ، 35 سال کی خدمات کے بعد کوئی غداری کا ٹائٹل لے کر گھر نہیں جانا چاہتا، اداروں پر اعتماد رکھیں، اگر ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو پچھلے 20 سال سے ہم اپنے خون سے منہ دھو رہے ہیں، فوج عوام کے بغیر کچھ نہیں ہے، ہم کبھی انسٹی ٹیوشن کے طور پر قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے، ہم کمزور ہو سکتے ہیں،ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہوسکتے۔