- ضمنی الیکشن میں جیت کے بعد مجھے قتل کرنے کا پلان تھا ،جس کی اطلاع ہماری ایجنسیز کے کچھ لوگوں نے مجھے پہلے دے دی تھی
- جے آئی ٹی نے ملزم نوید کے کال ڈیٹا ریکارڈ کے لیے وفاقی ادارے سے رابطہ کیا تو انہوں نے صاف انکار کردیا
- مجھے معلوم ہے واقعے میں کون لوگ ملوث ہیں اور میں اس وقت اداروں کے نام بتائوں گا جب جے آئی ٹی ان افسران کو بلائے گی
- ہمارے ملک کے محافظ اس سازش میں کیسے شامل ہوگئے، کیا انہیں ملک کی کوئی فکر نہیں ہے؟چیئرمین پی ٹی آئی کی پریس کانفرنس
لاہور (ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کے ضلع وزیرآباد میں مارچ پر ہونے والی فائرنگ کا ملزم تربیت یافتہ تھا۔ مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا، ضمنی الیکشن میں جیت کے بعد مجھے قتل کرنے کا پلان تھا اور پھر واقعے کی سلمان تاثیر کی طرح رنگ دے دیا جاتا، اس بات کی اطلاع ہماری ایجنسیز کے کچھ لوگوں نے مجھے پہلے دے دی تھی،مجھے معلوم ہے وزیرآباد واقعے میں کون لوگ ملوث ہیں اور میں اس وقت اداروں کے نام بتائوں گا جب جے آئی ٹی ان افسران کو بلائے گی۔لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے پنجاب کے ضلع وزیر آباد میں ان پر ہونے والے حملے کے حوالے سے اپنے موقف کو دہرایا اور کہا کہ پہلے سازش کرکے مجھے حکومت سے نکال دیا گیا اور پھر مجھے قتل کرنے کی سازش کی گئی اور میں نے عوام کو بتا دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے انٹیلی جینس ایجنسیوں کے اندر سے لوگوں نے بتایا کہ مذہب کے نام پر مجھے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور پھر وزیر آباد میں فائرنگ کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ میں پسٹل شوٹنگ کی ہوئی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ وزیرآباد میں گولیاں چلانے والا ملزم تربیت یافتہ تھا کیونکہ اس نے ریپڈ فائرنگ کی ہے، ابتسام نے ان کو اوپر کی طرف فائرنگ کرنے سے روکا اور اللہ نے مجھے بچایا۔ عمران خان نے کہا کہ میں ہسپتال بھی نہیں پہنچا تھا کہ پولیس ملزم کا بیان ریکارڈ کرکے مخصوص لوگوں کو جاری کرتی ہے حالانکہ اس وقت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو پہلے پتا تھا کہ اس کے پیچھے کون تھا اور میں نے بتایا تھا کہ منصوبہ بندی ہو رہی ہے، ظاہر ہے جب منصوبہ بندی کا پتا تھا تو اس کے پیچھے کون تھا وہ بھی معلوم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک پارٹی کا سربراہ اور سابق وزیراعظم ہوں اور پنجاب میں ہماری حکومت ہے لیکن میری مرضی کے مطابق تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہوئی کیوں، اس سے بھی بڑی طاقت تھی جو روک رہی تھی یہ میرا پہلا سوال ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پوری کوشش کرنے کے بعد ایف آئی آر درج کراونے میں ناکام ہوتے ہیں اور اس کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بن جاتی ہے اور مشکلوں سے تحقیقات کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب جے آئی ٹی نے ڈی پی او سے کہا ہمیں آپ کے موبائل فون کی ضرورت ہے تو پنجاب میں ہماری حکومت ہوتے ہوئے ہماری حکومت کا ڈی پی او گجرات واضح طور پر منع کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی نے ملزم کا بیان ریکارڈ کیا اور سی ٹی ڈی کا عہدیدار بھی جے آئی ٹی کی جانب سے طلب کرنے کے باوجود وہ تعاون کرنے سے منع کرتا ہے حالانکہ سی ٹی ڈی بھی ہماری حکومت کے زیرانتظام ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس کے بعد جے آئی ٹی عدالت میں اپنی تحقیقات جمع کرادیتی ہے اور اس میں کہا گیا کہ حملہ دو نہیں تین تھے، ایک نوید جس نے گولیاں ماری، دوسرا اوپر سے گولیاں چلائی گئیں اور دو اور گولیاں مختلف تھیں۔ انہوں نے کہا کہ معظم جب ملزم کی طرف جاتا ہے تو اس کو گولی لگتی ہے، گولی نہ تو آگے سے لگتی ہے اور نہ ہی کنٹینر سے لگتی ہے بلکہ کہیں دور سے آکر گولی لگتی ہے جو دراصل نوید کو مارنے کے لیے تھی لیکن درمیان میں معظم آگیا کیونکہ انہوں نے لیاقت علی خان جیسا واقعہ بتانا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے فون کا فرانزک کرانے کے لیے وفاقی ادارے کو دیا لیکن اس ادارے نے منع کیا کہ ہم نہیں دیتے تو کیوں نہیں دیتے، اس کی وجہ کیا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے کہ کون کون لوگ اس میں ملوث ہوسکتے ہیں، مجھے پتا ہے وہ کون ہے لیکن سب کے لیے سوال چھوڑ رہا ہوں اور چاہتا ہوں قوم خود سوچ لے۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو کس نے بنائی اور چن چن کر بتایا گیا عمران خان نے توہین مذہب کی، وہ کون تھے اور کون سا ادارہ تھا، مجھے پتا ہے وہ کون ساہے، لیکن میں سب کے سامنے چھوڑ رہا ہوں اور امید کرتا ہوں جب جے آئی ٹی لوگوں کو بلا کر سوال پوچھے گی تو ہم سب کو بتا سکیں گے وہ کون ہیں۔ اپنے سوالات دہراتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہے کس نے ایف آئی آر نہیں درج کرانے دی لیکن بتایا جائے وہ کون ہے، ڈی پی او گجرات پر میرے دو سوال ہیں کہ کس نے کہا تھا کہ ان صحافیوں کو ویڈیو بھیجیں اور کیسے ہمارے مخالف صحافیوں کے پاس یہ ویڈیو پہنچی اور کس نے حکم دیا تھا، مجھے پتا ہے کس نے حکم دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کو کس نے ویڈیو بنانے کا کہا تھا جو رات کو 12 بجے جاری کی تھی اور پھر بیک گرائونڈ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے اندر سے چیزیں لیک ہوئی اور ہمارے خلاف بولنے کے اینکر کو پہنچائی گئیں، یہ ایک جرم ہے کیونکہ جب تک عدالت میں چیزیں نہیں پہنچتیں وہ لیک نہیں ہوسکتیں۔ عمران خان نے کہا کہ نوید کا پولی گراف ٹیسٹ کیا گیا تو دو چیزیں واضح سامنے آگئیں، اس سے پوچھا گیا کہ صرف ایک آدمی کے علاوہ کس نے رابطہ کیا تھا تو اس نے کہا نہیں کیا تھا جو جھوٹ نکلا، واضح ہوگیا کہ اس کے پیچھے منصوبہ بندی ہوئی تھی اور اس کو تیار کرکے بھیجا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ دوسرا سوال پوچھا گیا کیا آپ کو پسٹل شوٹنگ کی تربیت تھی تو اس نے کہا کوئی تربیت نہیں تھی اور پولی گراف کے اوپر پھر جھوٹ نکل آیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے سارا کیس ختم ہوجاتا ہے، جس وقت تین حملہ آور آگئے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ منصوبہ بندی سے قتل کی کوشش تھی اور پھر یہ بھی پتا چلا کہ یہ کوئی دینی آدمی نہیں تھا کہ اشتعال میں آکر قتل کی کوشش کرے۔ عمران خان نے کہا کہ ملک میں طاقت رکھنے والے لوگوں سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں، مجھے پتا ہے مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس کے پیچھے ہے، رانا ثنااللہ کے لیے قتل کروانا کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ جن لوگوں نے ملک کی حفاظت کرنی ہے وہ اس پلاٹ میں کیسے شامل ہوگئے ہیں، شہباز شریف یا رانا ثنااللہ یہ کام نہیں کرسکتے تھے بلکہ اس میں یہ لوگ شامل تھے جن کو ہم محافظ سمجھتے ہیں۔