توقع ہے حکومت کھلے ذہن کیساتھ معاملے کا جائزہ لے گی، کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکے نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے،سپریم کورٹ
ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے، سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ
چاہتے ہیں کہ نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو، اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی،چیف جسٹس کے ریمارکس
تحریک انصاف کا پارلیمنٹ واپس جانے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا،کیس کی سماعت آج (بدھ ) تک ملتوی
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیب ترامیم کے خلاف عمران خان پارلیمنٹ کیوں نہیں جارہے؟ کئی بار کہا ہے ترامیم کا معاملہ عدالت کے بجائے پارلیمان سے حل کیا جائے، عمران خان پارلیمنٹ میں واپس جائیں اور ترمیمی بل پیش کردیں۔ نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی۔ تحریک انصاف کا پارلیمنٹ واپس جانے کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں زیر بحث آگیا۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ اخبارات میں خبریں چھپی ہیں کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس جا رہی ہے، اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی؟ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے وکیل سے کہا کہ اپنے موکل سے پوچھیں کیا ہم نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج دیں؟ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ہدایات لیے بغیر عدالت میں کوئی بات نہیں کرسکتا، پارلیمانی نظام میں تمام طریقہ کار واضح اور طے شدہ ہے، پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب قانون کا ترمیمی بل پیش کرسکتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قانون سازی اکثریتی رائے کے بجائے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے، حکومت اور پی ٹی آئی نیب ترامیم کے معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا جانا چاہیے، امید ہے حکومت اور پی ٹی آئی اتفاق رائے سے قانون سازی کریں گی۔ حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاست کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی حکومت کا تصور بھی موجود ہے، ہوسکتا ہے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آ کر کہے کہ جو نیب ترامیم ان کے دور میں ہوئیں وہ درست ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو، نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عمل درآمد متاثر ہو رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ پارلیمنٹ میں جا کر نیب ترامیمی بل پیش کردیں، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جارہی؟ اس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی فیصلے کے تحت اسمبلی سے باہر آئی، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا موثر قانون چاہتے ہوں گے، حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہترین قانون بناسکتے ہیں، توقع ہے دونوں جانب سے دانش مندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اتنا کہہ دیں کہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا تو 90 فیصد کیس ختم ہوجائے گا، ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے حوالے سے قانون واضح ہے، مخدوم علی خان کو اسی لیے ہدایات لینے کا کہا ہے، توقع ہے حکومت کھلے ذہن کے ساتھ معاملے کا جائزہ لے گی، سپریم کورٹ کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکی کہ نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے، بادی النظر میں عمران خان کا کیس 184/3 کے زمرے میں آتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا مناسب نہیں ہوگا پی ٹی آئی اسمبلی میں ترمیمی بل لائے جس پر بحث ہو، اسمبلی میں بحث سے ممکن ہے کوئی اچھی چیز سامنے آ جائے، اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی میں واپس جانا یا نہ جانا سیاسی فیصلہ ہے، اگر پارلیمان سے مسئلہ حل نہ ہو تو عمران خان عدالت آ سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کئی ارکان پارلیمان کا کرپشن کے سنگین الزامات پر ٹرائل چل رہا تھا، کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ ارکان اسمبلی نے اپنے کیسز ختم کرانے کیلئے قانون سازی کی ہو؟ حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکی صدر کو اختیار ہے کہ کسی بھی مجرم کو عام معافی دے دے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا نیب ترامیم ایمنسٹی اسکیم ہیں یا عام معافی؟ کیا نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق کرنا اپنے الزامات صاف کرنا نہیں ہے؟ اس پر حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ترامیم کا ماضی سے اطلاق نہ ہوسکے، کبھی کوئی قانون اس وجہ سے کالعدم نہیں ہوا کہ ارکان پارلیمنٹ کی نیت اچھی نہیں تھی، عدالت ارکان اسمبلی کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی، مفادات کا ٹکرا بھی قانون سازی کالعدم کرنے کی وجہ نہیں ہوسکتا، بجٹ منظور کرنے والے کئی ارکان اسمبلی صنعت کار اور کاروباری بھی ہوتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ارکان اسمبلی کے کنڈکٹ پر عدالت اپنی حدود کو پھیلا سکتی ہے؟ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں یا نہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایک وزیر نے پاکستان آ کر وزارت کا حلف لیا اور عدالت میں پیش ہونے سے نیب کیسز ختم ہوئے، ایک اور وزیر خزانہ اس شرط پر بنے کہ ان پر دائر نیب کیسز ختم کیے جائیں، پی ٹی آئی کے رہنماوں کو نیب ترامیم سے ریلیف ملا لیکن اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا، سابق وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹو پر نیب کیس بنایا گیا، کئی سال جیل میں رکھنے کے بعد تفتیش میں کچھ نا ملنے پر وہ بری ہوئے، نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نیب کے کنڈکٹ کے خلاف درخواست لے کر آئیں عدالت ایکشن لے گی، ہمیں آزاد تفتیشی اور پراسیکیوٹرز چاہئیں، تفتیشی افسروں اور پراسیکیوٹرز کی نالائقی کی وجہ سے قانون کا نظام خراب ہوا، ملک کے قانونی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نہ ہی اس کے فیصلوں کو مانتے ہیں، عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جہاں درخواست گزار موجود ہی نہیں تھے اس کارروائی کو کیا چیلنج کرسکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا ترمیم کے زریعے اب تک 386 کیسز واپس ہوچکے ہیں۔ وکیل وفاقی حکومت بولے نیب کو رضاکارانہ واپس کی گئی رقم بھی قومی خزانے میں نہیں آئی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا رقم غائب ہونا ہی تو اصل مسئلہ ہے جسے روکنا ہے چیف جسٹس نے کہا بدقسمتی ہے کہ عوام کا پیسہ کس کس طرح غائب کیا گیا.،ستر کی دہائی میں پاکستان نے چائنہ کو قرض دیا تھا،پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئرلائن ہوا کرتی تھی مگر اب سب لوگ مفاد پرست ہوچکے ہیں۔ عدالت دوسرے اداروں کا کام کرنے کے بجائے انہیں فعال کرنا چاہتی ہے۔آئین پر عملدرآمد کیلئے عدالت ہر ادارے پر نظر رکھ سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت نے ہمیشہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا ہے۔ آڈیٹر جنرل کو بھی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ حکومتی کام میں شفافیت آ سکے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا پارلیمان بھی آئینی ادارہ ہے اسے بھی سپورٹ کرنا چاہیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت آج بروز بدھ تک ملتوی کردی۔