شواہد ناکافی قرار،نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد رائو انوار سمیت تمام ملزمان بری،5 سال بعد فیصلہ آ گیا
پراسکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے،اے ٹی سی کراچی
نقیب اللہ قتل کیس میں مدعی کے وکیل صلاح الدین پہنور کا عدالتی فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان
جھوٹا کیس انجام کو پہنچ گیا، 25 لوگوں کو کیس میں ملوث کیا گیا جو بے گناہ تھے،رائو انوار
کراچی( ویب نیوز)
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 5 سال بعد نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی را ئوانوار سمیت دیگر ملزمان کے خلاف نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ 14 جنوری کو محفوظ کیا تھا جسے اب سنادیا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راشد مصطفی سولنگی نے اپنے مختصر فیصلے میں رائوانوارسمیت تمام ملزمان کیخلاف شواہد ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا ہے۔نقیب اللہ قتل کیس میں مدعی کے وکیل صلاح الدین پہنور نے عدالتی فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔ صلاح الدین پہنور نے کہا کہ کیس میں پولیس والوں نے کوئی تعاون نہیں کیا ہے، بیانات سے منحرف ہونیوالے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ عدالتی فیصلہ سننے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے رائو انوار نے کہا کہ جھوٹا کیس انجام کو پہنچ گیا، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے مجھ پر جھوٹا مقدمہ بنایا، 25 لوگوں کو کیس میں ملوث کیا گیا جو بے گناہ تھے۔13 جنوری 2018 کو اس وقت کے ایس ایس پی ملیر را ئوانوار نے دعویٰ کیا کہ ایک پولیس مقابلے کے دوران 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ہلاک ہونے والے ایک شخص کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی، سوشل میڈیا پر نقیب اللہ سے متعلق باتیں وائرل ہوئیں تو میڈیا نے بھی اس پر آواز اٹھائی۔ پشتون تحفظ موومنٹ بھی اسی واقعے کے بعد منظر عام پر آئی۔بعد ازاں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے اس معاملے کا نوٹس لیا۔ نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود نے 23 جنوری 2018 کو ایک ایف آئی آر درج کرائی جس میں کہا گیا کہ 3 جنوری 2018 کو سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب اللہ اور دیگر دو افراد حضرت علی اور قاسم کو اٹھاکر لے گئے، 6 جنوری کو حضرت علی اور قاسم کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن نقیب اللہ کو قید رکھا گیا۔محمد خان محسود( ان کا اب انتقال ہوچکا ہے)نے موقف اختیار کیا کہ 17 جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا ہے۔عدالت نے راو انوار اور دیگر ملزمان پر 25 مارچ 2019 کو فرد جرم عائد کی تھی اور 51 گواہان کے بیانات قلمبند کئے گئے تھے۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے خود نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود سے ملاقات کی اور انہیں انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا لیکن انہیں انصاف نہ مل سکا، اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلانے کی امید ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔گزشتہ 5 برسوں کے دوران ناصرف محمد خان محسود کا انتقال ہوگیا بلکہ رائو انوار کے خلاف بیان دینے والے اہلکار بھی اپنے بیانات سے مکر گئے۔