سانحہ پشاور انتہائی دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر سیاست کی جا رہی ہے
شوق سے ہتک عزت کا دعوی کریں، زرداری سے متعلق اپنے بیان پر قائم ہوں،سابق وزیر اعظم کاویڈیو لنک خطاب،سینئر صحافیوں سے گفتگو
لاہور (ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سانحہ پشاور انتہائی دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر سیاست کی جا رہی ہے، ہمیں ذمہ دار ٹھہرانے والے بتائیں کہ ہمارے دور میں دہشت گردی کے واقعات کیوں نہیں ہوئے؟ ،برے حالات کی ذمہ داری مجھ سے پہلے 30 سال تک حکومت کرنے والوں پر ہے،ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس نے بہت زیادہ قربانیاں دیں، افسوس اتنا بڑا سانحہ ہوا اورسیاست کی جارہی ہے، قوم کو بتانا چاہتا ہوں یہاں تک پہنچے کیسے، چند ماہ سے پھر سے دہشت گردی شروع ہو گئی ہے۔عمران خان نے کہا کہ افغان جہاد کے بعد سب کو پتا تھا ردعمل آنا ہے، مشرف نے 2003 میں قبائلی علاقوں میں پہلی دفعہ فوج بھیجی، قبائلی علاقے پرامن علاقے تھے، جب قبائلی علاقوں میں فوج بھیجی تومسئلے شروع ہو گئے، فوج بھیجنے پرقبائلی علاقوں میں بڑا غصہ تھا، پشتونوں نے 2002 کے الیکشن میں ایم ایم اے کو ووٹ دے کر بتا دیا وہ جنگ کیخلاف ہیں۔انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے ہم امریکا کی جنگ میں شامل ہوتے گئے تو آہستہ آہستہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھتی گئی، جب میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں آواز اٹھاتا تو مجھے طالبان خان کہا جاتا، ڈرون حملوں کے خلاف واحد میں تھا جس نے آواز بلند کی تھی باقی تو ڈرتے تھے، 2004 سے آہستہ آہستہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی شروع ہو گئے، ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے پولیس والوں سے بدلہ لیتے تھے، جب ہم نے خیبرپختونخوا میں اقتدار سنبھالا تو پولیس ریفارمز کی اور پولیس کی ٹریننگز کرائیں۔عمران خان نے کہا کہ 2021 میں جب امریکا نے افغانستان سیانخلا کا اعلان کیا توہمیں خانہ جنگی کا خوف تھا، خوف تھا جب افغانستان میں خانہ جنگی ہو گی تو پاکستان پر بھی اثرات پڑیں گے، جنرل (ر) باجوہ سے اچھے اچھے کاموں پر ایک پیج پر تھے، ایکسٹینشن کے بعد جنرل(ر) باجوہ سے اختلاف شروع ہوا، جنرل(ر) باجوہ نے کہا ان کو این آر او دے دو جس پر میں نے انکار کر دیا تھا، دوسرا اختلاف باجوہ سے جنرل (ر) فیض کی وجہ سے ہوا، میں چاہتا تھا افغانستان سے امریکا کے انخلا کے دوران بیسٹ کھلاڑی جنرل فیض کو ہونا چاہیے تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ صدر اشرف غنی بھاگ گیا اور طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا، اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی تو سب سے زیادہ پاکستان کو نقصان ہوتا، پاکستان کے اس وقت افغانستان کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے، افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزارکلومیٹر تک ہمارا بارڈر ہے، ہماری کوشش تھی افغانستان میں استحکام آجائے، ہم نے دوحہ میں ڈائیلاگ کرائے تاکہ افغانستان میں استحکام آئے، اس کے بعد بدقسمتی سے رجیم چینج سے ہماری حکومت کو ہٹا دیا گیا، اس وقت جنرل باجوہ سے کہا اس وقت افغانستان حکومت پاکستان کی اینٹی نہیں ہے۔عمران خان نے کہا کہ جب ان کی حکومت آئی تو ان کو کسی چیز کی سمجھ نہیں تھی، پشاور مسجد دھماکہ، شواہد آنے سے پہلے ہی گورنر نے الیکشن میں تاخیر کا خط لکھ دیا، گورنر نے کہہ دیا کہ الیکشن میں تاخیر کی جائے، لوگوں کو تو پہلے ہی اس حوالے سے خدشات تھے۔انہوں نے کہا کہ آج جو ہمیں ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ان سے پوچھتا ہوں ہماری حکومت میں دہشت گردی کے واقعات کیوں نہیں ہوئے؟ مارچ، اپریل تک بتایا جائے خیبرپختونخوا میں کتنی دہشت گردی تھی؟، آج پاکستان میں معاشی تباہی آگئی ہے، ہم تب تک ذمہ دار ہیں جب تک ہماری حکومت تھی، مجھے ان کی نااہلی اور کرپشن کا پتا تھا، انہوں نے ہی ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ بار بار جنرل باجوہ کو کہتا رہا، ان لوگوں کو 30 سال سے جانتا ہوں، انہیں کامیاب نہ ہونے دیں یہ ملک نہیں سنبھال سکیں گے، انہی لوگوں نے تو ملک کو تباہی پر پہنچایا تو ٹھیک کیسے کر سکتے ہیں؟۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اکنامک سروے کیمطابق 17 سال بعد ہماری حکومت میں معیشت میں گروتھ ہو رہی تھی، کونسی تبدیلی آئی کہ معیشت تباہ اور دہشت گردی بھی انتہا کو پہنچ گئی؟ آج تو عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بھی کم ہیں، ہمارے دور میں عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود گروتھ ہو رہی تھی، آج معیشت کیسے نیچے چلی گئی؟سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے عوام مسائل کاشکار ہوگئے ہیں، ابھی ملک میں مزید مہنگائی آنی ہے، ابھی پیٹرول اور ڈیزل مزید بڑھے گا، گیس اوربجلی کی قیمتیں اور اوپرجائیں گی،اس سے قبل لاہور میں سینیئر صحافیوں سے ملاقات میں گفتگو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ میں آصف زرداری سے متعلق د ئیے گئے اپنے بیان پر قائم ہوں، آصف زرداری شوق سے ہتک عزت کا دعوی کریں۔ ہتک عزت کا دعوی وہ کرتے ہیں جن کی اپنی کوئی عزت ہوتی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنا میری بہترین حکمت عملی تھی، اسمبلیاں تحلیل ہوتے ہی حکومت بندگلی میں آچکی ہے، اسمبلیاں تحلیل نہ کرتے تو عام انتخابات نہیں ہونے تھے، 90 روز میں انتخابات نہ کرائے گئے تو آئین شکنی ہوگی۔چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ابھی میرا ایک اور میڈیکل چیک اپ ہونا ہے، ٹھیک ہو کر انتخابی مہم کا آغاز کروں گا