کراچی: شاہراہ فیصل پر ایڈیشنل آئی جی کے دفتر پر حملہ،  تین دہشت گرد ہلاک، دس اہلکار زخمی

دہشتگروں کے حملے  میں دو پولیس اہلکاروں اور رینجرز اہلکار سمیت 4 افراد شہید ہوگئے

8 سے 10 دہشت گردوں نے کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ کیا

حملہ آوروں نے دستی بم پھینکے اور گولیاں چلائیں،عملے کے 20 افراد ریسکیو کرلیا گیا

وزیراعلی اور گورنر سندھ کا ایڈیشنل آئی جی کے دفتر پر حملے کا نوٹس، رپورٹ طلب

کراچی (ویب  نیوز)

کراچی کے علاقے شارع فیصل پر واقع کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر  دہشتگروں کے حملے  میں دو پولیس اہلکاروں اور رینجرز اہلکار سمیت 4 افراد شہید ہوگئے جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جوابی کارروائی میں 3 دہشتگرد مارے گئے اور عمارت کو تقریباً 4 گھنٹے بعد کلیئر کرالیا گیا۔

 ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ مقدس حیدر نے بتایا کہ حملے میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوئے، ایک دہشتگردچوتھی منزل پر اور 2 چھت پر ہلاک ہوئے۔ جبکہ ہلاک دہشتگردوں میں سے ایک نے خود کو اڑایا۔

مقدس حیدر کا کہنا تھاکہ کراچی پولیس آفس میں آپریشن مکمل ہوگیا اور عمارت کو کلئیر کرالیا گیا۔ پولیس حکام  کے مطابق حملے میں دو پولیس اور ایک رینجرز اہلکاروں سمیت 4 افراد شہید ہوگئے جبکہ 18 زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق حملہ شام 7 بجکر 10 منٹ پر کیا گیا، حملہ آور پولیس لائنز سے داخل ہوئے۔

حکام نے بتایا کہ رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری نے پولیس آفس کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا اور آپریشن کے دوران شارع فیصل کے دونوں ٹریکس کو  ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

کراچی پولیس آفس میں تقریباً 4 گھنٹے بعد آپریشن مکمل ہوگیا اور عمارت کو کلئیر کرالیاگیا۔  آپریشن مکمل ہونے کے بعد پولیس اور رینجرز اہلکاروں نے اللہ اکبر کے  نعرے لگائے۔

حکام کے مطابق پولیس کو تیسری منزل پردہشت گردوں کے لائے گئے 3 بیگ ملے، تینوں بیگز میں سے گولیاں اور بسکٹ نکلے۔

آپریشن کے دوران چوتھی منزل پر محصور  ڈی ایس پی نعیم اور وسیم سمیت عملے کے متعدد ارکان کو بحفاظت نکالا گیا۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں،ذرائع کے مطابق حملہ شام 7 بجکر 10 منٹ پر کیا گیا،پولیس کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 8 سے 10 ہے جنہوں نے دستی بم بھی پھینکے جب کہ علاقے میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، حملہ آور پولیس چیف کے دفتر میں داخل ہوئے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس ہیڈ آفس میں عملہ موجود ہے، کراچی پولیس ہیڈ آفس کی لائٹس بند کردی گئی ہیں۔ اس ضمن میں ایڈیشنل آئی جی جاویدعالم اوڈھو نے کہا کہ میرے دفتر کے باہر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ڈی آئی جی ساتھ عرفان بلوچ نے حملے سے متعلق  ایک نجی ٹی وی  کو بتایا کہ کم از کم 6 دہشت گرد عمارت میں موجود ہیں، کوشش ہے جلد دہشت گردوں کو گرفتاریا ٹھکانے لگایا جائے۔ڈی آئی جی ساتھ کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد مارے گئے جب کہ اسی دوران  حملہ آوروں کی فائرنگ سے چھ اہلکار زخمی ہوگئے جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق رینجرز کے زخمی اہلکاروں میں 35 سالہ عبد الرحیم، 25 سالہ طاہر اور 35 سالہ عمران شامل ہیں۔اس کے علاوہ 50 سالہ پولیس کانسٹیبل عبد الطیف، 48 سالہ انسپکٹر عبد الخالق اور 22 سالہ ایدھی رضاکار ساجد بھی زخمی ہوئے ہیں،پولیس کے مطابق اہلکاروں نے تیسری منزل تک آفس عمارت کلیئر کردی جب کہ پولیس آفس سے 2 لاشیں جناح اسپتال منتقل کی جارہی ہیں۔ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ ایک جاں بحق شخص پولیس کی وردی میں ہے، دوسرے شخص کی شناخت نہیں ہو سکی۔پولیس حکام نے بتایا کہ دہشت گرد پولیس کی وردی میں ملبوس ہیں جو عمارت کی چھت پر بھی موجود ہیں۔ترجمان سندھ رینجرز نے بیان میں کہا کہ کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کی اطلاع پر رینجرز کوئیک رسپانس فورس(کیو آر ایف) نے جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کا گھیراو کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ رینجرز نے پولیس کے ہمراہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے اور ابتدائی طور پر 8 سے 10 مسلح دہشت گردوں کی جانب سے حملہ اور ان کی وہاں موجود گی کی اطلاع پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے  ایک نجی ٹی وی  کو بتایا کہ جناح ہسپتال میں دو لاشیں اور تین زخمیوں کو لایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں پولیس اہلکار لطیف، رینجرز اہلکار عبدالرحیم اور ایک ایدھی رضاکار بھی شامل ہے۔ایدھی فاونڈیشن کے ترجمان کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں سے ایک کی شناخت 45سالہ پولیس کانسٹیبل غلام عباس کے نام سے ہوئی ہے جبکہ سادہ کپڑوں میں ملبوس دوسری لاش کی شناخت نہیں ہو سکی۔ادھر ایس ایچ او خالد حسین نے بتایا کہ نامعلوم حملہ آوروں نے کراچی پولیس کے دفتر کے قریب صدر پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا ہے اور ہر طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ڈی آئی جنوبی عرفان بلوچ کے مطابق ابتدائی اطلاع ہے کہ دہشت گرد عقبی راستے سے داخل ہوئے اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری پہنچ چکی ہے۔طلاعات کے مطابق کے پی او کی تیسری منزل کو بھی کلیئر کرا لیا گیا ہے اور عملے کے 20 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے۔کے پی او کے دفاتر سے ریسکیو کیے گئے 20 افراد کو گرانڈ فلور پر پہنچا دیا گیا ہے۔ترجمان اسپیشل سکیورٹی یونٹ کے مطابق کمانڈوز کا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور عمارت کا چوتھا فلور بھی کلیئر کرالیا گیا ہے، دہشت گرد عمارت کی چھت پر موجود ہیں، ایس ایس یو کے اسنائپرز  اطراف میں تعینات ہیں۔پولیس حکام کے مطابق جب سکیورٹی اہلکار گھیرا تنگ کرتے ہوئے عمارت کی بالائی منزل کی طرف پہنچے تو کراچی پولیس آفس کی چھت پر دہشتگرد نے خود کو دھماکے سے اڑا  لیا۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 3 دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں۔ڈی آئی جی ساتھ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد پوری تیاری سے آئے تھے، دہشت گردوں نے 2 سے 3  اطراف سے حملہ کیا، عمارت میں 40 سے 50 لوگ موجود ہیں، حملہ آوروں سے سخت مقابلہ کر رہے ہیں، شہر بھر کی نفری موجود ہے، رینجرز  اور  فوج بھی ہے، دہشت گردوں کی حتمی تعداد نہیں معلوم، عمارت کے اندر لوگ محصور ہیں اور آپریشن جاری ہے۔جناح اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک 10  زخمی اور دو لاشیں لائی جاچکی ہیں، زخمیوں میں رینجرز اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ایک زخمی ریسکیو اہلکار کو 2 گولیاں لگی ہیں، ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔کراچی صدر  پولیس لائن کے احاطے سے ایک کار ملی ہے جس کے چاروں گیٹ کھلے ہیں۔اس کے علاوہ کراچی پولیس ہیڈ آفس کے مین گیٹ کے پاس سے بھی ایک کار ملی ہے، دہشت گرد ان دو کاروں میں سوار ہوکر حملے کیلئے پہنچے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دونوں گاڑیوں کو بم ڈسپوزل اسکواڈ کا عملہ چیک کر رہا ہے، ایک گاڑی عمارت کیعقب، دوسری سامنے کھڑی ملی ہے، حملہ آوروں نے چھت پر پہنچ کر  پوزیشن لے لی ہے، چھت پر جانے کا واحد راستہ سیڑھیوں سے ہونے کی وجہ سے آپریشن میں مشکلات ہیں،وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے ایڈیشنل آئی جی سندھ کے دفتر پر حملے کا نوتس لیتے ہوئے ڈی آئی جیز کو اپنی زون سے پولیس فورس بھیجنے کی ہدایت کردی۔مرادعلی شاہ نے کہا کہ مجھے فوری طور پر ملزمان گرفتار چاہئیں، حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں، تھوڑی دیر کے بعد متعلقہ افسر سے واقعے کی رپورٹ چاہئے۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردی کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی۔کامران ٹیسوری نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور ایکشن لینے کی ہدایت کرتے ہوئے متاثرہ مقام پر خصوصی فورسز بھیج کر دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ کراچی پولیس پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ سندھ پولیس نے اس سے قبل بھی دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کرکے اسے کچل دیا تھا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ سندھ پولیس دوبارہ دہشتگردوں کو کچل دے گی، ایسے بزدلانہ حملے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔کراچی پولیس کے مطابق حملے کے پیش نظر آواری ٹاور سے نرسری تک شاہراہ فیصل کو دونوں جانب سے ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے۔وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کو عبرتناک شکست دی جائے گی تاہم ابھی دہشت گردوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی بھی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی نفری اندر اور باہر موجود ہے لیکن یہاں سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا، یہ حملہ دہشت گردوں کو بہت مہنگا ثابت ہوگا۔وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ حملے کے وقت کراچی پولیس کے سربراہ عمارت میں موجود نہیں تھے اور حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی تعداد چھ سے سات بتائی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ چھ سے سات دہشت گرد گاڑی میں آئے اور دستی بم پھینک کر عمارت میں داخل ہوئے اور وہ اس وقت کراچی پولیس آفس کی تیسری منزل پر موجود ہیں۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ پولیس اہلکار عمارت کی تیسری منزل تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وفاق اس سلسلے میں سندھ پولیس کو ہر قسم کی معاونت فراہم کرے گا۔

#/S