اسلام آباد (ویب نیوز)
- پشاور ہائی کورٹ کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ بجلی کی قیمتوں کے حوالہ سے ازخود کوئی فیصلہ کرے
- عدالتوں کو آئین پر عمل کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے معاملات میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرنی چاہیے،عدالتی فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں کے تعین کا اختیار صرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو حاصل ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ (پیسکو) قومی گرڈ سے بجلی خرید کر صارفین کو فراہم کرتی ہے اوروہ نیپرا کی جانب سے مقرر کردہ قیمت صارفین سے وصول کرنے کی پابند ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ بجلی کی قیمتوں کے حوالہ سے ازخود کوئی فیصلہ کرے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کو اگر پن بجلی کی مد میں نیٹ ہائیڈل منافع نہیںمل رہا تواس حوالہ سے پشاور ہائی کورٹ کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ، یہ معاملہ صوبائی حکومت کی جانب سے متعلقہ فورم پر اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ طے شدہ اصول ہے کہ عدالتیں اپنا آئینی اختیار غیر جانبداری، معقولیت اور متناسب معیار کی کسوٹی پر پورا اترتے ہوئے استعمال کریں گی۔ عدالتوں کو آئین پر عمل کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے معاملات میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرنی چاہیے جب تک آئین کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی یا ایگزیکٹو کی جانب سے قانونی اورآئینی حدود کی خلاف ورزی نہیںکی جاتی۔ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے اخذکردہ نتائج میں غلطیاں ہیں لہذاانہیں برقرارنہیں رکھا جاسکتا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ بظاہر ہائی کورٹ نے پالیسی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی جو کہ اسے احتیاط کرنی چاہیئے تھی کہ ایسے پیچیدہ معاملات کاملکی معاشی صورتحال پر براہ راست اثر ہے۔ یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ معاشی پالیسی معاملات کو ریگولیٹ کرے، عدالتوں کی ذمہ داری قانونی تشریح تک محدود ہے۔ عدالت سے توقع کی جاتی ہے وہ بنیادی حقوق پر عملدرآمد معقول انداز میں کروائے گی نہ کہ ایسے انداز میں کہ جس سے مزید غیر ضروری پیچیدگیاں پیداہوں۔ موجودہ کیس میں مودبانہ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت حاصل دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے اور نیپرا کی پالیسی اور فریم ورک کے خلاف فیصلہ دیا جو کہ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کے پیرامیٹرز سے باہر تھا۔پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ (پیسکو) اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے 17دسمبر 2013کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیاگیا تھا۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ایس ایس پلائی پراپیلین (پی وی ٹی)لمیٹڈ پشاور اوردیگر، ایم ایس ٹواسٹار ماربل فیکٹری اوردیگر، صوابی ٹیکسٹائل ملز (پی وی ٹی) لمیٹڈ اوردیگر، نیو تھری اسٹار ماربل فیکٹری اوردیگر، امین پیپربائونڈ ملزاوردیگر، پریمیئر فورمیکا انڈسٹریز لیمٹڈ اور دیگر، میکلون لوبریکینٹس (پی وی ٹی)لمیٹڈ اور دیگر، سوات سیرامکس کمپنی (پی وی ٹی) لمیٹڈ اوردیگر، سرحد فرنٹ اینڈ سٹیل ملز اوردیگر، خیبر سپننگ ملز (گدون امازائی)لمیٹڈ اوردیگر، ایم ایس زاہد ماربل انڈسٹری اوردیگر،محمد دائود اسٹیل انڈسٹری اوردیگر، لاہور اسٹیل ملز اوردیگر،افیندی سٹیل (پی وی ٹی)لمیٹڈ اوردیگر، رحمان کاٹن ملز لمیٹڈ اوردیگر، نمرہ اسٹیل ملز (پی وی ٹی)لمیٹڈ اوردیگر، رحیم اینڈ برادرز آئس فیکٹری اوردیگر ، ایس ایس پلائی پراپیلین (پی وی ٹی)لمیٹڈ پشاور اوردیگر سمیت 74ملز مالکان کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواستیں 2014میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کی گئی تھیں۔ ان اپیلوں میں درخواست گزاروں نے پشاور ہائی کورٹ کے 17دسمبر 2013کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ مدعا علیحان کی جانب سے اپنی درخواستوں کے زریعہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ / کنزیومر اینڈ چارجز کے نفاذ کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میںجسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس مسزعائشہ اے ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 14ستمبر 2022کو کیس کی سماعت کی تھی۔ 34صفحات پرمشتمل جاری کردہ تحریری فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا ہے۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ منورُ اسلام ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ شمشاداللہ چیمہ اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سید رفاقت حسین شاہ اور شیخ محمود احمد پیش ہوئے جبکہ نیپرا کی جانب سے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ محمد اشرف مجید پیش ہوئے جبکہ عدالتی نوٹس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ایاز شوکت، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا زاہد یوسف قریشی، سیکرٹری انرجی اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا کی جانب سے مس مہناز بطور لاء آفیسر پیش ہوئیں جبکہ پیسکو کی جانب سے چیف لاء آفیسرعرفان رعائیت اور لاء آفیسر محمد توفیق پیش ہوئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ مدعا علیحان ، درخواست دہندہ کمپنی کے صارفین ہیںجو کہ نیپرا سے لائسنس یافتہ ہے۔ کمپنی کی جانب سے صوبہ میں چارجزکانفاذ کیاگیا اوراس کی وجہ عالمی سطح پر فیول کی قیمتوں میں اضافہ بتایا۔ اس سے قبل چارجز کے نفاذ کے خلاف رٹ پیٹیشن دائر کی گئی تھی اور ہائی کورٹ کی جانب سے معاملہ نیپرا کو بھجوایا گیا تھا تاہم بعد ازاں 19ستمبر2011کے ایک حکم کے تحت چارجز وصولی دوبارہ شروع کردی گئی۔متاثرہ مدعاعلیحان نے رٹ پیٹیشنز کے زریعہ دوبارہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت نے یہ درخواست منظور کر لیں۔ غیر مطمئن درخواست گزاروںنے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل کی جانب سے مئوقف اختیار کیا گیا کہ پشاور ہا ئی کورٹ کی جانب سے چارجز کو صوبے کی بنیاد پر غیر قانونی قراردینا غلطی ہے کیونکہ ملک بھر میں دیگر ڈسٹریبیوشن کمپنیاں بھی اپنے صارفین سے یہ چارجز وصول کررہی ہیں۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ نیٹ ہائیڈل منافع کی مد میں بجلی کی وصولی صوبے اور وفاق کا معاملہ ہے اوراس میں صارف کا کوئی لینا دینا نہیں۔ وکیل کی جانب سے بتایاگیا کہ اگر نیٹ ہاییڈل منافع کی مد میں صوبے اور وفاقی کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوتا ہے تووہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میںاٹھایا جاسکتا ہے اور اس حوالہ سے عدالت کا کوئی دائرہ اختیار نہیں۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ بجلی کی پیداوار، ٹرانسمیشن اور تقسیم صوبے کا اختیار نہیں بلکہ اسے وفاق اپنے اپنی ملکیت یا زیر کنٹرول اداروں کے زریعہ مینج کرتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم نے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے اورفریقین کے وکلاء کے دلائل بھی سنے ہیں۔ عدالت درج ذیل سوالات کے جواب تلاش کرے گی۔ کیا نیپرا درخواست گزار کمپنی کے صارفین پر چارجز کا اطلاق کرسکتی ہے؟کیا صارفین پر چارجز کا اطلاق من مانے طریقہ سے کیا گیا ہے؟ بجلی کے معاملہ میں آئین کی منشاء کیا ہے؟ کیا ہائی کورٹ نے زیربحث معاملہ میں اپنے دائرہ اختیار کادرست استعمال کیا ہے؟
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے کے زریعہ قراردیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میںپید ہونے والی بجلی صوبے کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے لہذا ان چارجز کا اطلاق صوبہ خیبر پختونخوا کے شہریوں پر نہیں ہوتا۔ ہائی کورٹ نے قراردیا خیبرپختونخوا بجلی کی مقدار کے معاملہ میں بڑے پیمانے پر قومی گرڈ میں اپنا حصہ ملاتا ہے تاہم اس کے باوجود صوبے کا اس کا نیٹ ہایڈل منافع میں جائز حصہ ادا نہیں کیا جاتا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ پہلے واپڈا بجلی کی پیدوار، ٹرانسمشن اور تقسیم کا ذمہ دار تھا تاہم بعد ازاں ادارہ جاتی فریم ورک مرتب کیا گیا جس کے تحت بجلی کی پیدوار، ٹرانسمشن اور تقسیم کے فنگنشز کو الگ، الگ کردیا گیا۔ نئے سیٹ اپ کے تحت دی ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹر ک پاور ایکٹ1997کے تحت، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نتیجتاً واپڈا کو نیپر اکالائسنس یافتہ بنادیا گیا جبکہ آئی پی پیز اور دیگر جنریشن کمپنیز (جنکوز) بجلی کی پیدوار کی ذمہ دار ہیںجبکہ بجلی تقسیم اورٹرانسمیشن کی ذمہ داری نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی)کو سونپی گئی۔ این ٹی ڈی سی تقسیم کا کمپنیوں جو کو (ڈسکوز)کہا جاتا ہے کو بجلی فراہم کرتی ہے۔ 1997کے ایکٹ کی شق 7کے تحت نیپراکو بجلی کی فراہمی کو ریگولیٹ کرنے کااختیار دیا گیا ہے۔ 1997کے ایکٹ کے تحت نیپرا کو بجلی کی قیمتوں کے تعین کا اختیار دیا گیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے ذہن میںکوئی ابہام نہیں کہ بجلی کی قیمتوں کا تعین نیپرا کا خصوصی دائرہ اختیار ہے۔ یہ فیڈرل لیجیسلیٹو لسٹ کے بھی عین مطابق ہے جس میں بجلی کے معاملہ کو وفاق کا سبجیکٹ کہا گیا ہے اور اسی کی روشی میں 1997کے ایکٹ کااطلاق کیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قراردیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کی ساری بحت اس نقطہ کے گرد گھومتی ہے کہ خیبر پختونخواکواس کا جائز نیٹ ہائیڈل منافع نہیں جارہا لہذا صوبہ خیبرپختونخوا میں بجلی صارفین پر چارجز کا اطلاق ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ بدقسمتی سے ہم اس نتیجہ سے متفق نہیں ہو سکتے کیونکہ نیٹ ہائیڈل منافع کی ادائیگی مکمل طور پر ایک مختلف اورالگ معاملہ ہے، جس کا کنزیومیر اینڈ ٹیرف سے کوئی تعلق نہیں ، جو کہ ڈسکوز کی ریونیو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کو نیٹ ہائیڈل منافع کی مد میں رقم نہیںملی تو یہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان معاملہ ہے اور مناسب ہو گاکہ اس معاملہ کو مناسب فورم پر اٹھایا جائے نہ کہ ہائی کورٹ میں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ نیپراشفا ف طریقہ کار کے تحت پورے ملک کے بجلی صارفین کے لئے1997کے ایکٹ کے سیکشن31کی دفعہ چار کے تحت یکساں قیمت کا تعین کرتی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت کام کرتے ہوئے ہائی کورٹ کو چاہیئے کہ وہ لازمی طور پر آئین کے مطابق عمل کرے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ جذباتی انداز میں، سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے دیئے جانے والے فیصلوں کے خلاف نہیں جاسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے قراردیا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی ہمیشہ ، ہمیشہ کے لئے طے کرچکی ہے اور اس فیصلے کی موجود گی میںہائی کور ٹ کو مختلف نتیجہ پر اخذ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوتو 1997کے ایکٹ کے تحت اس کو حل کرنے کا اختیار بھی نیپرا کے پاس ہے۔ ہائی کورٹ کو اپنا دائرہ اختیار استعمال کرنے سے قبل یہ دیکھنا چاہیئے تھا کہ کیا درخواست گزاروں نے اپنی شکایت کی تلافی کے لئے متبادل سہولت کو استعمال کرلیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ہائی کورٹ نے جذباتی اندازمیں دائر پیٹیشن کو سنا جس میں شکایت کی تلافی کے حوالہ سے متبادل سہولت موجود تھی اور اس سے فائدہ نہ اٹھانے کو تسلیم کیا گیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ شکائت کی تلافی کے لئے قانون میں موجود سہولت سے فائدہ اٹھائے بغیر ہائی کورٹ کے اآئینی دائرہ اختیار کو براہ راست استعمال نہیں کیا جاسکتا اور وہ بھی انتہائی تکنیکی معاملہ جو کہ ٹیرف کے تعین کے حوالہ سے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلے میں قراردیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 157(2)(d)کے تحت صوبہ اسی صورت میں بجلی کی قیمتوں کا تعین کرسکتا ہے کہ اگر وہ قومی گرڈ سے تقسیم کے لئے اکٹھی بجلی خریدے یا دوسرا صوبے کے اندر استعمال کے لئے بجلی کے کارخانے لگائے، گرڈ اسٹیشنزنصب کرے اور ٹرانسمشن لائنیں بچھائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپیل کندہ کمپنی ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جو کہ کمپنیز آرڈیننس کے تحت 23اپریل 1998کو وجود میں آئی۔ یہ کمپنی قومی گرڈ سے بجلی خریدتی ہے اور پھر صوبہ خیبر پختونخوا میں بجلی صارفین کو بجلی تقسیم کرتی ہے۔ جواب دہندہ کے وکیل ہمیں ریکارڈ سے کوئی ایسی چیزنہیں دکھا سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) صوبائی حکومت کی ملکیت ہے یا صوبائی حکومت اسے کنٹرول کرتی ہے۔ ہمیں یہ بتانے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ پیسکو صوبائی حکومت کا ایک محکمہ ہے۔ ہائی کورٹ کو چاہیئے تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیتی کہ پسیکو صوبائی حکومت کے ماتحت آنے کے حوالہ سے تعریف پر پورا بھی اترتا ہے کہ نہیں کیونکہ یہ لمیٹڈ کمپنی تشکیل دی گئی تھی۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ یہ چیز بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں دکھائی گئی جس سے یہ بات ثابت ہو کہ پیسکو خود بجلی بناتی ہے اور پھر صارفین کو فراہم کرتی ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ریکارڈ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پیسکو قومی گرڈسے بجلی خرید کر سپلائی کرتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم نے درخواست دہندہ کمپنی پیسکو کا نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)کے ساتھ لائسنس کا معاہدہ دیکھا ہے جس کے آرٹیکل 6میں کہا گیا ہے کہ کمپنی صرف وہی ٹیرف وصول کرے گی جس کی منظوری مجاز اتھارٹی نے وقتاً فوقتاً دی ہو گی۔ پیسکو کے پاس قیمتوں کے تعین کے حوالہ سے کوئی صوابدیدی اختیا ر موجود نہیںالبتہ یہ نیپرا کی جانب سے مقرر کردہ چارجز وصول کرنے کی پابند ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ پیسکو نے نیپرا سے لائسنس حاصل کررکھا ہے لہذا یہ ان شرائط پر عملدرآمد کی پابند ہے اور ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ پیسکو کے لائسنس اور نہ ہی پیسکو کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ جبکہ 1997کے ایکٹ کے تحت بنائے گئے بنائے گئے رولز کو بھی چیلنج نہیں کیا گیا جس کا مطب ہے کہ یہ قوانین فیلڈ میں موجود ہیں اور ان پر لازمی طور پر مکمل طور پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیپرا کو مقننہ کی جانب سے بااخیتار بنایا گیا ہے اوراس کی اتھارٹی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا تو پھر صارفین کے لئے بجلی کی قیمتوں کے حوالہ سے جو فارمولا بنایا گیا ہے اس پر ہائی کورٹ کی جانب سے سوال نہیں اٹھانا چاہیئے تھا، یہ معاملہ بجلی کے حوالہ سے ہے اور یہ وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت عظمیٰ پہلے ہی قراردے چکی ہے کہ یہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی )کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ٹریف کا تعین کرے۔ اس پس منظر میں، معزز عدالت عالیہ کو ایسے نتیجہ پر نہیں پہنچنا چاہیئے تھا جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف جاتا ہو۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ بظاہر ہائی کورٹ نے پالیسی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی جو کہ اسے احتیاط کرنی چاہیئے تھی کہ ایسے پیچیدہ معاملات کاملکی معاشی صورتحال پر براہ راست اثر ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ معاشی پالیسی معاملات کو ریگولیٹ کرے، عدالتوں کی ذمہ داری قانونی تشریح تک محدود ہے۔ عدالت سے توقع کی جاتی ہے وہ بنیادی حقوق پر عملدرآمد معقول انداز میں کروائے گی نہ کہ ایسے انداز میں کہ جس سے مزید غیر ضروری پیچیدگیاں پیداہوں۔ موجودہ کیس میں مودبانہ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت حاصل دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے اور نیپرا کی پالیسی اور فریم ورک کے خلاف فیصلہ دیا جو کہ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کے پیرامیٹرز سے باہر تھا۔ اس صورتحال میں ہائی کورٹ کو چاہیئے تھا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتی اور معاملہ فیصلہ کے لئے نیپرا پر چھوڑ دیتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ عدالتیں اپنا آئینی اختیار غیر جانبداری، معقولیت اور متناسب معیار کی کسوٹی پر پورا اترتے ہوئے استعمال کریں گی۔ عدالتوں کو آئین پر عمل کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے معاملات میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرنی چاہیے جب تک آئین کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی یا ایگزیکٹو کی جانب سے قانونی اورآئینی حدود کی خلاف ورزی نہیںکی جاتی۔ ہائی کورٹ کی جانب سے اخذکردہ نتائج میں غلطیاں ہیں لہذاانہیں برقرارنہیں رکھا جاسکتا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خیبرپختونخوا سب سے زیادہ پن بجلی پیدا کرتا ہے یا نہیں کرتا،تو پھر یہ عنصر اس بات کی بنیاد نہیں بن سکتا کہ نیپرا صارفین کے ٹیرف میں کمی کرے، جس کا قانون میں اسے اختیاردیا گیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر نیٹ ہائیڈل منافع کی عدم ادائیگی کے حوالہ سے خیبرپختونخو کو کوئی شکایت ہے تو صوبہ قانون اورآئین کے مطابق اپنی شکایات کے ازالہ کے لئے متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ اوپر دی گئی وجوہات کی روشنی میں یہ اپیلیں منظور کی جاتی ہیں اور پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے 17دسمبر 2013کو دیا گیا فیصلہ کالعدم قراردیا جاتا ہے۔