اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے،عدالت کے ریمارکس
سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں کہ انتخابات آئین کے مطابق ہوں،چیف جسٹس عمرعطا بندیال
ہم صدرِ پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں،بیرسٹرعلی ظفر
میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا،جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل کا شکریہ کہ وہ پہلے ہی موجود ہیں، ہم اس معاملے کو طوالت نہیں دینا چاہتے، نہ کوئی ابہام چھوڑنا چاہتے ہیں ،چیف جسٹس
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے، جسٹس اطہر من اللہ،سماعت آج (جمعہ ) تک ملتوی
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران صدرِ مملکت، الیکشن کمیشن، گورنر خیبر پختونخوا، گورنر پنجاب اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کردیئے ۔ جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ۔سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔بینچ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ میں شامل تھے۔دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے، پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں 14 اور17 جنوری کو تحلیل ہوئیں۔ریمارکس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 224/2 کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 دنوں میں ہونے ہوتے ہیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی، از خود نوٹس میں دیکھا جائے گا کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بھی سکیورٹی سمیت فنڈز نہ ملنے کی شکایت کر چکا ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، آج ہم اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ انتخابات آئین کے مطابق ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، صدرِ پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات ہوں گے، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے، ہمارے سامنے ہائی کورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم صدرِ پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں کیس کی سماعت سوموار سے ہو گی، انتخابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سنیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے سپیکر کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا جو کہ فریق نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ سوال دونوں اسمبلیوں کے سپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کئے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے، ہم صرف آئین کی تشریح اور آئین کی عمل داری کے لئے بیٹھے ہیں، اٹارنی جنرل کا شکریہ کہ وہ پہلے ہی موجود ہیں، ہم اس معاملے کو طوالت نہیں دینا چاہتے، نہ کوئی ابہام چھوڑنا چاہتے ہیں، ہم 2 بجے بیٹھے ہیں، یہ ہمارے لیے غیر معمولی ہے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کر دی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو تیاری مشکل ہو گی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج (جمعہ کو) ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت اگلے ہفتے کریں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استدعا کی کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین الیکشن سے متعلق ایک ٹائم کا تعین کرتا ہے، ہمارے لیے بہت آسان تھا کہ الیکشن کی دو آئی ہوئی درخواستیں ہی فکس کر لیتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات ہیں، ایڈوکیٹ جنرل کو نوٹس کیا جائے، سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس کیا جائے، پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹس کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں، صدر مملکت، گورنروں، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیے سماعت کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔